تلاش گمشدہ

او بابو !

رک جانا ذرا پل بھر کو۔  یہ تصویریں ہیں میرے پاس۔ تازہ مہکتے پھول ، قبلہء اوّل کے سائے میں کھلے نوخیز پھول،  مسل ڈالے ،  فاسفورس بموں سے جھلس گئے سب ۔۔۔۔۔  کیا  کہا ؟ تمھیں دکھاؤں  ارے نہیں ،  مجھے ، ان   کا پتہ بتادو یہ  انہی کو دکھانی ہیں۔

نہیں جانتے ۔۔۔۔۔

 آہ ۔۔۔۔۔۔۔۔،،

اے یونیورسٹی بس

میں سوار ہوتے نوجوان!

اے  گاڑی اسٹارٹ کرتے  جینٹل مین! ،   میم ! آپ رکئیے گا ذرا ، او اخبار  والے! دکھاؤ ذرا  آج کے بڑے اخبار شائد ،ان، کا  اتاپتا  مل جائے۔۔۔۔

آہ ۔۔۔۔۔۔۔ آہ

ڈھونڈتے ڈھونڈتے ، چلتے چلتے پاؤں میں آبلے پڑ گئےمیرے۔۔۔۔۔۔

اے ۔۔۔ ارے او بچے ۔۔۔ بیٹا!

سنو۔۔۔

یہ ۔۔۔ یہ تصویریں دیکھو  ۔۔۔۔ اور مجھے بتاؤ۔۔۔،،

یہ تو  اسرائیلی بمباری کے مناظر ہیں   اُف ۔۔۔۔۔۔۔،،

ہاں بیٹا! مگر مجھے تلاش ہے ،،ان،، کی

نام پوچھ رہے ہو ان کا ۔۔۔۔۔۔؟

بھئی  انسانی حقوق کی تنظیموں کو کون نہیں جانتا انہی کا پتا پوچھ رہی ہوں  اپنے ملک میں  درجنوں تو ہیں فعال و متحرک۔۔۔،،

آپ ان کےمقامی دفتر نہیں گئیں ؟؟”

بند پڑے ہیں دفتر ان کے۔”

ہا ہا ہا ہا”

ہائیں ! تم تو ہنس رہے ہو ۔۔۔۔ “

آپ ان کے علاوہ بھی دو نام لے رہی تھیں۔”

ہاں ہاں ۔۔ وہ دو خواتین ہیں

ایک گل مکئی ۔ پتہ ہے ناں گل مکئی کو افغانستان کی “مظلوم” عورتوں کی بڑی فکر رہتی ہے اور اپنے شہر میں میں “ان پڑھ بچیوں” کی بھی اور یہ جو ہیں شرمین عبید چنائے ان محترمہ نے تو خواتین پہ تشدد کے  بارے ڈاکومینٹری بنائی۔”

ہا ہا ہا ہا ۔۔۔۔۔۔ !”

تم پھر ہنس دئے ۔۔۔۔۔۔۔”

دیکھئے بات ساری کیمپ کی ہے۔”

کیمپ کی ؟؟؟  سمجھی نہیں ۔۔.”

جی ہاں ایک کیمپ ہے انکل سام کا تو اس میں جو متاثرین انکل سام ہیں وہ ظلم اسے کہیں گے جسے انکل سام ظلم کہے گا اور حقوق کا تعین بھی انکل سام کی مرضی سے ہو گا۔۔۔،،

اوہ میرے اللہ ۔۔۔۔”

اور دوسرا کیمپ ہے سچے اور کھرے لوگوں کا اللہ واحد پر ایمان ان کی زندگی کا عنوان ہوتا ہے ۔ جس طرح  رب کائنات کی ذات اور خود کائنات اتنی وسیع ہے ، اسی طرح ان سچے اور کھرے لوگوں کی سوچ بھی بڑی ہوتی ہے وہ کسی پر بھی کہیں بھی ظلم ہوتا برداشت نہیں کر سکتے پھر بھلے وہ یہودی ہو،  ہندو ہو،  مسلمان ہو،  عیسائی ہو ظلم جس پر بھی ہوگا یہ دادرسی کریں گے۔ اور جن لوگوں کا نام آپ لے رہی ہیں ۔۔۔۔ اور   یا انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی آپ ان کو منظر عام پر دیکھنا چاہتی ہیں تو بس ایک چھوٹی سی خبر پاکستان  کے کسی شہر میں کسی چھوٹے سے محلے میں کسی گھر میں چولہا پھٹنے کی ان این جی اوز تک پہنچا  دیجئے پھر دیکھئے گا  انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق  کے یہ علمبردار کیسے چھلانگیں لگاتے متعلقہ جگہ پہنچ جائیں گے اپنے ساز و سامان سمیت۔۔۔۔۔

اور یاد آیا پرانی بات ہے افغانستان  میں منتخب حکومت  نے وہاں  کابل میں مرکزی چوک میں نصب مہاتما بودھ  کا مجسمہ  مسمار کرنے کا فیصلہ کیا تھا  تو  یہ مغرب و یورپ  سے  انسانی حقوق کی ، ڈگریاں،  پانے والے سب چیخ  اُٹھے تھے۔۔۔۔،،

فلسطین میں ہر روز سیکڑوں خواتین اور بچے اسرائیل کے وحشیانہ تشدد کا شکار ہو رہے ہیں ان کے بارے یہ لوگ ڈاکومینٹری نہیں بنائیں گے کیا؟ وہاں یہ لوگ نہیں پہنچیں گے کیا؟  اس درندگی اور بربریت پہ گل مکئ کا دل نہیں تڑپتا کیا ؟؟  ان بیوہ خواتین اور شہید خواتین کے کسی ایک  سانس کی بھی اتنی وقعت نہیں شرمین عبید چنائے  جیسے لوگوں کی نظر میں  کہ  وہ  اس  پر  چند منٹ کی ہی ڈاکومنٹری بنا لیں۔۔۔۔؟؟

نہیں پہنچیں گی یہ این جی اوز وہاں۔۔۔۔   اور  نہ  ہی  کوئی  ڈاکومنٹری بنائے گا۔۔۔۔۔،،

مگر۔۔۔۔۔ کیوں ؟ کیوں؟ کیوں؟؟

وجہ  صاف ظاہر ہے کہ،،،،

ضمیر مغرب ہے تاجرانہ ضمیر مشرق ہے راہبانہ۔۔۔۔۔

 کشمیر اور فلسطین پہ ٹوٹنے والے غم کے پہاڑ کو  فلمانے  والے  کو  آسکر ایوارڈ کبھی نہیں  ملے گا۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔۔ انکل  سام کی نگاہوں کی  شاباش اور  اس کے دیس کے ،نظارے،  اور ،عیش کے پروانے،  کبھی  نہیں ملیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔

لمحے کی خطا  اس اُمت وسط نے کی کہ جہد وعمل کا میدان  اہل مغرب کے حوالے کیا اور خود تسبیح پکڑ لی تو آج صدیوں کی سزا بھگت رہے ہیں ہم۔۔۔۔۔،،

آہ۔۔۔۔ مغرب کے ذہنی غلاموں کی ذہنیت  بھی تاجرانہ بن چکی ہے ان کا اصل  ہدف    آسکر ایوارڈ  ہے،  نوبل پرائز ہے۔۔۔۔ دنیا کی واہ واہ ہے،

جی ہاں ۔۔۔۔ اور آپ نے دیکھا  نہیں ؟حال ہیں میں  یو این او میں،  فلسطین میں جاری اسرائیلی درندگی  کے خلاف  قرار داد کو انکل سام کے گماشتوں نے ویٹو کر دیا۔۔۔۔۔ایک بار نہیں بار بار۔۔۔ وہ  یو این او کسی کے لئیے آسکر ایوارڈ کا اعلان کرتا ہے تو  بات تو ساری واضح ہے۔

اوہ۔۔۔۔۔۔۔،،،

آپ  دل کو تسلی دیجئے کہ ایک این جی او ہے جو بلا تخصیص نظریہ و عقیدہ ہرجگہ پہنچتی ہے ،وہی جسکی کارکردگی کو چار و نا چار دنیاکو  تسلیم کرناپڑا

اپنے ملک میں سب سے بڑی فلاحی تنظیم اور ایشیا کی پانچویں بڑی تنظیم کے  درجے پہ  فائز  ہے۔ اور میری صلاح الدین بٹالین کی تربیت  کا اگلا مرحلہ الخدمت فاونڈیشن کے ساتھ ہے ان شاء اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علاوہ ازیں آج مسلم غیر مسلم ہرحساس دل فلسطینیوں کے ساتھ  ہے۔۔۔،،

مگر بیٹا  ، یہ اتنے بڑے ماسک سے چہرہ کیوں چھپا رکھاہے۔۔۔۔۔۔؟،،

لیجئے۔۔۔۔ ہٹا  دیا  ماسک ،،

او  میرے بچے!   کیا  یہ  بھی کسی ٹریننگ کاحصہ ہے ؟ کہ چہرہ اور آواز دونوں کی ایکٹنگ۔۔۔۔؟ ،،

ٹریننگ  تو جاری تھی صلاح الدین بٹالین   کے  ہمراہ۔۔۔،،

صلاح الدین بٹالین ؟؟ ۔۔۔۔۔،،

جی  ہاں میری یونیورسٹی کے لڑکوں کے گروپ کا نام ہے ۔۔۔۔،،

اور  اس وقت کیا ٹریننگ کررہے تھے۔۔؟،،

آج کی ہماری ٹریننگ جنگ کے دوران   زخمیوں کو فرسٹ ایڈ دینے کے حوالے سے ہے۔

واہ بھئ ،،

تو کیا وہ جو بچپن سے نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے شیروں کی کہانیاں میرے رگ و پے میں اتاریں آپ نے وہ رائیگاں جاتیں ؟؟ ،،

ہاں بیٹا ! اب ہمیں بیدار ہونا  پڑے گا۔ دنیا بھر کی جابر قوتیں ہمارے خلاف ہر طرح سے تربیت یافتہ  ہیں۔ جانتے ہو  نا  ہر  یہودی  بچے  کے لئیے  فوجی تربیت پانا لازمی ہوتا ہے  اور نام نہاد  مسلمان  گانے ناچنے کی تربیت میں لگے ہیں ،،،

آپ کو بتاوں ہم  کوشش کر رہے ہیں اپنی یونیورسٹی  میں ایک بہت بڑی  الاقصیٰ کانفرنس منعقد کی جائے۔۔،،

واو۔۔۔۔۔ ،،

چلیں آپ کو گھر  چھوڑ دوں اور پھر میں اپنے گروپ کی طرف چلا جاؤں گا،،

نہیں بیٹا میں خود چلی جاؤں گی  آپ جاؤ ۔۔۔۔،،

میرے ہاتھوں کا پیالہ اور اس کے چہرے کی معصومیت اور آنکھوں کی روشنی۔۔۔

دن بھر کی تھکن گویا  پل  بھرمیں دور ہوگئی۔۔۔۔۔