زینب ! نورین بیٹا اب طبیعت کیسی ہے ڈاکٹر کے پاس گئیں تھی اس نے کیا کہا؟
نورین ! ہاں ڈاکٹر نے وٹامن ڈی اور یورک ایسڈ کے ٹیسٹ کروائے ہیں، جب تک درد کے لئے کچھ دوائیاں بھی دیں ہیں، بڑی مشکل سے کھانا بنایا ہے میں تو کھڑی بھی نہیں ہوسکتی۔
زینب ! ایک تو ہم لوگوں نے اپنی زندگی خود مشکل بنا دی ہے، دو تین گھنٹے کھڑے ہوکر کھانا بنانا پڑتا ہے تو ٹانگوں اور کمر میں تو درد ہونا لازمی ہے۔
نورین ! میں سمجھی نہیں امی آپ کی بات؟
زینب ! بھئی ہم نے ہوش سنبھالا تو یہ امریکن کچن کا راج دیکھا پہلے گھروں میں کچن میں بیٹھ کر کھانا بنانے کا انتظام اور رواج ہوتا تھا کچن میں سوئی گیس کے چولہے اس طرح لگوائے جاتے تھے کہ خواتین منجھیوں(تختیوں ) پر بیٹھ کر آرام سے سالن اور روٹی بناتی تھیں پاس بیٹھے بچے دسترخوان پر کھانا بھی کھاتے جاتے اور اماں اور دادی سے کہانیاں وغیرہ بھی سنتے رہتے۔
ایک اور چیز برا مت ماننا پہلے جو کچھ گھر میں کھانا بنتا سب ملکرکھا لیتے تھے آج کے بچوں کو اماؤں نے بگاڑ دیا ہے نہیں ہمیں یہ نہیں کھانا وہ نہیں کھانا، پھر مائیں برگر پیزا وغیرہ بناکر دیتی ہیں اس میں بھی خواتین کا زیادہ وقت کچن میں لگتا ہے اب یہی دیکھو کل تم خود بتارہی تھی کہ تم نے چکن قیمہ بنایاتھا تمہاری بیٹی نے کہا نہیں میں پاستہ کھاؤں گی بیٹے نے کہا برگر ،لہٰذا تمہیں مزید آدھا گھنٹہ کچن میں کھڑے ہوکر کام کرناپڑا پھر یہی نہیں بلکہ اس طرح برتن بھی زیادہ استعمال ہوئے جنہیں تم کو کھڑے ہو کر ہی دھونا پڑا۔
نورین ! مماآپ بالکل سچ کہہ رہی ہیں کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ کچن میں بیٹھ کر کام کروں؛ لیکن ایسا کوئی انتظام ہی نہیں ہے کل میری ساس بھی یہ بتارہی تھیں۔
عزیز ! مجھے ارشد کی شادی کے لئے آفس سے لون(قرضہ )لینا پڑے گا۔
ارجمند ! لون ؟مگر کیوں۔
عزیز! بھئی بری کا سامان پھر تین تین فنکشن ہیں اپنی اور بچوں کے لئے کپڑے وغیرہ کسی اچھے حال میں ولیمہ ، پھر خاندان کے بزرگوں بیٹی داماد وغیرہ کو بھی تحفے دینا، ظاہر ہے ہمارے پہلے بیٹے کی شادی ہے یہ سب تو کرنا ہوگا۔
دادی! اے بیٹا اتنا کچھ کرنے کی ضرورت کیا ہے تمہاری شادی میں ہم نے صرف سادگی سے ولیمہ کیا تھا دوسو لوگ تھے بری کے پانچ جوڑے اور گھر کے لوگوں نے دو دوسوٹ بنوالیے تھے ہم نے دلہن والوں کو بھی یہی کہا تھا کہ بس نکاح کی دعوت کریں مایوں مہندی پارلر سے تیار ہونا، یہ غیر ضروری چیزیں ہیں، اس طرح لڑکی والوں کا بھی بھلا ہوگیا اور ہمارا بھی۔آجکل ہمارے چاروں طرف یہی کچھ نظر آرہا ہے۔
یہ صرف میں نے یہاں دو جھلکیاں پیش کی ہیں آج یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ ہم نے اپنا لائف اسٹائل بدل دیا ہے جس کی وجہ سے ہم بہت سی اچھی چیزوں اور باتوں سے محروم ہو گئے ہیں، بچپن میں ہم اخبارات اور بچوں کی کتابیں پڑھتے تھے، وقت بھی اچھا گزرتا تھا بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملتا تھا ۔
جبکہ آج کل تو اکثر بچوں کو تعلیم بھی موبائل کے ذریعے دی جاتی ہے کتابیں اور اخبارات پڑھنے کا تو زمانہ گزر گیا کس کس کے گھر میں اخبارات اور بچوں کی کہانیوں کی کتابیں آتی ہیں ؟ بہت کم ، اس لئے مطالعہ کی عادت ہی ختم ہوتی جارہی ہے ، جدید سہولیات سے خوب فائدہ حاصل کیا جارہا ہے چاہے وہ اندرونی طور پر نقصان ہی کیوں نہ پہنچا رہیں ہوں ایک ملازمت پیشہ خاتون نے بتایا کہ میں بہت مصروف ہوتی ہوں اس لیے پورے ہفتے ڈیڑھ ہفتے کا کھانا بناکر ڈیپ فریزر میں محفوظ کر لیتی ہوں پھر ہر ٹائم کا کھانا نکال کر مائیکرواوون میں گرم کر لیتی ہوں جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ حفظان صحت کے لیے کچھ کھانے لمبے عرصے تک فریز کرنے یا پھر مائیکروویو میں گرم کرنے کا کیا نقصان ہوسکتا ہے ؟
بچپن میں ہم دوست ملتے تھے تو ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرنے اور کھیل کود میں وقت گزارتے تھے۔ جس سے ہماری ذہنی اور جسمانی ورزش ہوتی رہتی تھی جبکہ آج کزنز اور دوست وغیرہ کی محفل میں بیٹھے بچے موبائل کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اس لئے اکثر بچوں میں وہ چستی اور پھرتی کم دیکھنے میں نظر آتی ہے اور چھوٹی عمر میں بینائی کمزور ہونے کی شکایت بھی نظر آتی ہے اگر بچے تھوڑا کھیل کود لیں تو تھکن سے بد حال ہوجاتے ہیں۔
اگر اسی طرح ہم آنے والے وقت میں مزید جدید سہولیات کے عادی ہوتے جائیں گے تو ہمارا کیا حال ہوگا ؟ ویسے بھی آج کوئی شئے کوئی غذا بھی ہمیں خالص دستیاب نہیں ہوسکتی اوپر سے ان جدید سہولیات نے انسان کو ناکارہ اور کمزور کردیا ہے کیا میں غلط کہہ رہی ہوں۔