عدینہ ! دادو آج ہماری ٹیچر کہہ رہی تھی کہ آپ سب فلسطین کے لئے ضرور دعا مانگئے گا بچوں کی دعا اللہ ضرور قبول فرماتا ہے اس لئے میں نے نماز کے بعد دعا مانگی ہے کہ اللہ تو فلسطین کے مسلمانوں کی مدد فرما لیکن دادو مسلمان ملک تو بہت زیادہ ہیں سب ملکر دشمن کا مقابلہ کرسکتے ہیں پھر کیوں نہیں کر رہے ہیں۔
میں اپنی 12 سالہ پوتی کی بات سن کر چونک گئی شرمندہ ہوگئی مجھے اس وقت علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آگیا،،،،
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
بچپن میں اس شعر کو پڑھاتو اس وقت اتنا شعور نہ تھا کہ اسکی گہرائی تک پہنچ سکوں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ آگہی کے دروازے کھلتے گئے تو کچھ سمجھ میں آیازرا اپنا اپنا محاسبہ کریں تو کیا آج ہم غیروں یعنی غیر مسلموں کے آگے جھکے ہوے نہیں ہیں انکی دوستی کا دم نہیں بھر رہیں ہیں ، انکی مشابہت نہیں کر رہے ہیں جس کی بڑی مثال آج کل کے موجودہ حالات ہیں فلسطین اور غزہ کےمسلمانوں کی تکلیف پر امت مسلمہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ہم مسلمان غیر مسلموں کی دوستی کا حق ادا کر رہے ہیں یا ان سے ڈرے سہمے ہوئے ہیں یا ہمارے حکمرانوں۔کو اپنی بادشاہت۔کا ہاتھوں سے نکلنے کا ڈر ہے ؟ شاعر تو کہہ رہے ہیں کہ قلندر کی بات سن کر لوگ ندامت محسوس کرتے ہیں اسوقت کچھ اسلام دوست ان حکمرانوں کو غیرت دلانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں ! ہمیں تو اللہ رب العزت نے بھی غیروں (غیر مسلموں )کے اگے جھکنے اور انکی دوستی سے دور رہنے کی تلقین فرمائی ہے لیکن ہم پر اس بات کا اثر نہیں ہے
جی ہاں ! دین اسلام غیر مسلموں کو دوست بنانے سے ہمیں سختی سے روک رہا ہے آج ہم ان غیروں کے آگے جھکے ہوئے ہیں انکی دوستی کا حق ادا کرنے کے لئے جس پر ہمیں قطعاً ندامت بھی محسوس نہیں ہورہی ہے اسی وجہ سے آج اپنی پہچان، اپنے اصول، اپنا ایمان سب ہم نے نظر انداز کر دیا ہے ہم نے ہر لحاظ سے انکے رسم ورواج انکا کلچر انکا طرز زندگی اپنا لیا ہے اگر کوئی روکنے کوشش کرتا ہے تو وہ انکی نظروں سے گر جاتا ہے اور کہتے ہیں کہ آپکے دلوں میں تعصب بھرا ہوا ہے جبکہ غیرت مند مسلمان کو تو شرم سے پانی پانی ہو جانا چاہیے کیاآج کے حالات ایسے نہیں ہیں؟ غزہ و فلسطین کے مسلمان ایک بڑی آزمائش سے گزر رہے ہیں یہود ونصاری مسلمان اور اسلام دشمنی میں اکٹھے ہو گئے ہیں انکا سامنا فلسطین کے مسلمان تنہا ڈٹ کر کر رہے ہیں
آج وہ تنہا توکل خدا اس ازیت سے گزر رہے ہیں کیا وجہ ہے کہ ہم ان غیروں کے آگے جھکے ہوئے ہیں اور ہم۔ فلسطینیوں کاساتھ دینے سے گریز کر رہے ہیں جبکہ مسلمان ملکوں کی کثیر تعداد اور چالیس اسلامی ملکوں کی متحد افواج کا گروہ یہ کس لئے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور کیوں مسلمان۔حکمران خاموش ہیں؟دوسری طرف مسلم ممالک کی عوام سر بسجود بارگاہ الہی میں قبلہ اوّل اور فلسطین کے لیے دعاگو ہے انکے دل خون کے آنسو رو رہے ہیں کہ الہی اب تو ہی ابابیلوں کو بھیج جو ہمارے ان بھائیوں کے مددگار بن سکیں اور قبلہ اوّل کو ان یہود ونصاری ٰکے ناپاک ارادوں سے بچا سکیں ہم تو شرمندہ ہیں اللہ کا تو مسلمانوں سے وعدہ ہے کہ وہ انہیں یہود کے ساتھ قتال کرنے پر کا میابی عطا کرے گا۔جیسے سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تمہیں ایزا پہنچانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتےاگر تم ان سے قتال کروتو یہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے پھر انکی مدد بھی نہ ہوگی۔ لیکن آج اس جہاد میں ہمارا حصہ صرف دعا ہی ہے جو ابابیل بن کر ان یہود ونصاری کا خاتمہ کرے گی۔ ان شاءاللہ۔