دنیا کی رونق انسان ہی کی بدولت ہے. ہر دور کا انسان شاید اسی زعم کا شکار رہا ہو کہ اس کے بغیر دنیا کا نظام رک جائے گا مگر نظام کا خالق حی و قیوم ہے لہٰذا بڑے بڑے گوہر نایاب کی رحلت،نایاب ہیروں کے داغ مفارقت سے لے کر متکبروں کی دنیا سے رخصتی بھی دنیا کے نظام میں کوئی خلل نہ لائی۔
ہر انسان پیدا ہونے کے بعد اپنے گردو پیش کے حالات سے متاثر ہو کر، کسی نظریے کے زیر اثر، اجداد کی کوتاہیوں سے سبق سیکھ کر یا ان کی بالغ نظری سے متاثر ہو کر اپنے لئے مقصد زندگی طے کرتا ہے پھر اس مقصد کے لئے قربانیاں بھی دیتا ہے اور مشکلات کے پہاڑوں سے بھی گزرتا ہے مگر طلب صادق رکھنے والا اپنی منزل کو ضرور پا لیتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اکثریت کا مقصد زندگی کیا ہے۔
بڑے ہی محتاط مشاہدے کے بعد کا تجزیہ یہی ہے کہ زیادہ تر مسلمان اپنے اصل مقصد سے انحراف تو نہیں کر رہے مگر بھولے ضرور بیٹھے ہیں۔ تکلیف دہ حقیقت ہے مگر سچ یہی ہے کہ بحیثیت والدین ہمارا مشن ہی یہ ہوتا ہے کہ بچے کا مستقبل محفوظ کرنے کے لئے اس پر سرمایہ کاری کرنی ہے اور وہ سرمایہ کاری کیا ہے، مہنگے اسکول، برانڈڈ کپڑے، کوک، پیزا، برگر، نادانستہ یا دانستہ تقریبا ساری ملت اسی کو مقصد بنا کر بگٹٹ بھاگے چلے جا رہی ہے۔
اقبال کیا خوبصورت الفاظ میں مقصد حیات کی طرف توجہ دلا گئے؛
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی
اقبال بخوبی آگاہ تھے مغربی نظام تعلیم کی برائیوں سے؛
ہم سمجھتے تھے لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
، وہ تو نشاندہی کر گئے مخمل میں چھپے خوبصورت خنجر کی، اب یہ پاکستانی قوم کا کام ہے کہ خنجر کی تیزی سے کس حد تک متاثر ہونا ہے۔
بحثیت عوام اپنے آپ کو دیکھیں تو 76 سالوں سےاپنے تئیں بڑے سمجھدار اور مذہبی لوگ اپنا پیشوا یا سیاسی لیڈر جسے مانتے رہے ہیں ان کے شخصی اوصاف بھی سراہنے کے لائق نہیں رہے اور ملی کردار بھی انتہائی غیر تسلی بخش رہا ہے۔
جب قوم کی قیادت ہم طاغوت کے بندوں کو سونپ دیتے ہیں پھر ہماری پالیسیاں طاغوت کی من چاہی ہوتی ہیں، ہم نہیں سوچتے کہ ان کی موجودگی میں ہمارا تعلیمی نصاب کیونکر قابلِ فخر مسلمان پیدا کر سکتا ہے۔ زنگی وایوبی کیسے فرنگی مدرسوں اور جامعات سے نکل سکتے ہیں، حیرت ہے ہمیں میکالے کے نظام تعلیم پر اعتراض ہے نہ انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے پر، لیکن ہم عالم اسلام کے عملی مسائل دیکھنے کے بعد ڈپریس یو جاتے ہیں، ہمارے اندر کا مسلمان ہماری نیندیں حرام کر دیتا ہے، ہم جب نگاہ تغافل برتتے ہیں کفر والحاد اور اسلام کی نظریاتی کشمکش سے اور تمام شعبہ جات میں طاغوت کی پالیسیوں کو چلنے دیتے ہیں تو جہاں اقبال کے نظریہ
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی
کو ضرب لگاتے ہیں وہیں نظریہ اسلام پر بھی چوٹ لگاتے ہیں کیونکہ نظریہ اقبال کو بھی بجا طور پر دراصل قرآن ہی کی تفسیر کہا گیا ہے۔
اقبال نے مسلم قوم کی بے عملی کی کیا خوب تصویر پیش کی؛
وضع میں ہو تم نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں کہ جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
یعنی جب ہمارا اوڑھنا بچھونا، اٹھنا بیٹھنا، خریدو فروخت اور معاشی و تعلیمی پالیسیاں مستعار لی گئی ہیں اور نظریاتی کشمکش کی گویا نفی کر دی گئی ہے تو عملی مسائل پر یہ بے چینی چہ معنی دارد؟
لہٰذا جاگیے ! قرآن سے اقوام عالم کی تاریخ کا مطالعہ کیجیے جو نظریاتی کشمکش کی نا قابل تردید گواہی ہے، ہم کفر کو نظریاتی میدان میں شکست دیں گے اور ذہنی غلامی سے نکلیں گے تو ہی عالم اسلام کے عملی مسائل میں کفر پر غالب آسکیں گے، جب ہم نماز پڑھنے کی بجائے قائم کر کے کفر دعوت مبازرت دیں گے تو ہی عملی مسائل میں کفر غالب آنے کی بجائے اسلام غالب آئے گا۔ ان شاءاللہ