جیسے کوئی اپنے بھائی کو کمزور سمجھ کر دبا لیتا ہے نا اور پھر کچھ عرصے کے بعد غاصب “اصل مستحق” سمجھا جاتا ہے۔کسی کی زمین، گھر، جگہ پر نا جائز قبضہ کرنے والوں کی اولادیں اپنے آپ کو اصل مستحق گردانتی ہیں اور دیگر لوگ بھی رفتہ رفتہ انہی کو مستحق سمجھنے لگتے ہیں۔مغلوب چونکہ مظلوم ہوتا ہے اور اس مظلوم کا کسی نے ساتھ نہیں دیا ہوتا۔ کیوں ساتھ نہیں دیا ہوتا؟ کیونکہ ظالم سے ان کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں، ظالم کے ظلم سے آگاہ ہونے اور اسے غلط سمجھنے کے باوجود یہ چپکے بیٹھے رہتے ہیں اور اس پر بس نہیں بلکہ ان کی پراگندہ ذہنیت اور مفاد پرستی انہیں ظالم کو “مستحق” تشہیر کرنے پر گردانتی ہے۔ایسی صورت میں ہوتا کیا ہے، عموماً دو رویے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یا تو مظلوم اور اصل مستحق اپنا حق چھوڑ دیتا ہے جو بجائے خود ظلم ہے۔
ایسا مظلوم بھی دراصل ظالم ہے اگر جہد مسلسل کے بغیر اپنے حق سے کنارہ کشی اختیار کر لے۔ دوسری صورت میں مظلوم اپنے حق کے لئے ڈٹ جاتا ہے اور اس کا اپنے دعوے کی سچائی کو پیش اور ثابت کرنے کا انداز اتنا قطعی ہوتا ہے اور جذبہ صدق سے معمور اور عزم راسخ سے بھرپور ہوتا ہے کہ اگر اسے اپنا حق واپس لینے میں وقت بھی لگ جائے تو بھی وہ اپنے دعوے کے حق میں رائے عامہ کو ہموار اور بیدار کر دیتا ہے یوں مصلحت کوشوں اور مفاد پرستوں کے علاوہ وہ لوگ اس کےحق میں کھڑے ہو جاتے ہیں جو وسائل نہ بھی رکھتے ہوں مگر حق شناس ضرور ہوتے ہیں، یہی دوسری والی صورت بیت المقدس کی ہے۔
مسجد اقصٰی وہ جگہ ہے جو انبیاء سے منسوب ہے اور قبلہ اول کی حیثیت سے بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے، اس کی پوری تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمان اس کے اصل حقدار ہیں اس لحاظ سے بھی کہ مسلمان تمام انبیاء کو مانتے ہیں اور مساجد کی حرمت وتقدس سے آگاہ ہیں اور فرمانبردار اور “امت وسط” ہیں جبکہ یہودی بعض کو نبی مانتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں نیز ان کی تعلیمات پیغمبر کی اصل تعلیمات سے تحریف پر مبنی ہیں۔ اسرائیل کا فلسطین میں داخلہ بھی سازش کے تحت، ریاست بھی غیر قانونی، اس سے قبل کی تاریخ بھی دیکھیں تو اسرائیل کا اس علاقے میں داخلہ غاصبانہ تھا، انہوں نے اس علاقے پر حملہ کر کے وہاں کے رہنے والوں کو قتل یا بے دخل کر دیا، پھر مسجد اقصٰی کو مسلمانوں نے اس جگہ بنایا ہی نہیں جہاں اسرائیل کے دعوے کے مطابق ان کا ہیکل تھا۔
یاد رہے مسلمان بت شکن ضرور ہیں خصوصاً ان بتوں کو توڑنے والے ہیں جو مقدس جگہ کی بے حرمتی کر رہے ہوں مگر مسلمان دوسروں کی عبادت گاہوں کا احترام کرتے ہیں۔ اب، جبکہ یہ حتمی بات ہے کہ بیت المقدس پر یہود کا دعویٰ جھوٹا ہے تو فلسطینی آخر کس صورت ہیکل کی تعمیر اس جگہ ہونے دیں جو انبیاء کی جائے نماز رہی ہے۔ فلسطینی قوم نے تو حق کے لئے لڑ کر اور ڈٹ کر ایک قوم ہونے کا ثبوت دے دیا اور اپنے دعوے کی سچائی پورے عزم سے پیش کی مگر مفاد پرست مسلمان ممالک یہود کے پنجے کی تیزی کا ہی خوف کھاتے رہے۔ گو پاکستان نے فلسطین کو کبھی اسرائیلی ریاست تو تسلیم نہیں کیا مگر یہود سے ٹکر کی بات کرنے سے بھی ہمیشہ گھبرائے، یہ اپنی نسلوں کو تو بتاتے ہیں کہ اسرائیل مجرم ہے، غاصب ہے مگر اقتدار کے ایوانوں میں اسے پہنچاتے ہیں جو اقصٰی کے حقوق کے لئے سرگرم عمل ہی نہیں ہوتا، جو عالم اسلام کے فکری وعملی مسائل سے روگردانی کرتا ہے۔
کیا یہ دو رنگی نہیں کہ فلسطین بچاؤ کے نعرے بھی بلند کیے جائیں مگر لیڈر انہیں چنا جائےجو مفادات کے اسیر ہیں اور اقصٰی کے لئے عملی تدبیر کرنے سے بے نیاز، کیا وہ وقت آنے والا ہے جب ہم بھول جائیں گے کہ “غاصب” کون ہے اور “حقدار” کون؟ کیا ہم نسلوں کو اقصٰی سے وفا کا درس دیئے بغیر بیت المقدس کو بچا سکتے ہیں۔ اگر ہم بیت المقدس کے مجرموں کی فہرست سے نکلنا چاہتے ہیں تو فلسطینیوں کے پتھروں کو ہتھیاروں میں بدلنا ہوگا، نسلوں کو بتانا ہو گا کہ بیت المقدس کے اصل حقدار صرف مسلمان ہیں۔ ایوانوں میں انہیں پہنچانا ہو گا جن سے زنگی وایوبی کے وارثین کی مہک آتی ہو ناکہ انہیں جنہیں یہود کی کاسہ لیسی سے فرصت ہی نہ ملے۔
بچوں کو ہتھیاروں سے ڈرنا نہیں لڑنا سکھایا جائے گا، نازک اندام نہیں جفاکش اور قوی مومن بنایا جائے گا تو ہی القدس کے مجرموں کی فہرست سے نکلا جائے گا۔ اپنے نو نہالوں کو ابابیلیں بنا کر فلسطین کی طرف اڑانا ہو گا. “نونہال ابابیلیں ہیں” یہی خدشہ اسرائیل کو سونے نہیں دیتا اور معصوم جانوں کے خون سے لبریز ہو کر اپنی نفسیاتی تسکین کرتا ہے۔ ہمیں بھی اپنے نونہالوں کو ویسی ہی ابابیلیں بنانا ہو گا جو اسرائیل پر اللہ کا قہر بن کر ٹوٹیں۔ کیا ہم اپنے نو نہالوں کو ابابیل بنا کر بیت المقدس کے تحفظ کے لئے اڑانے کے لئے تیار ہیں؟ بے شک القدس کا تحفظ اس کے جواب میں مضمر ہے۔