مندرجہ بالا تصویر ہمارے فلسطینی بھائی کی ہے تصویر کیا ہے، مسلمانوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے، ہم جو خود کو مسلمان کہتے ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی گردانتے ہیں اس تصویر کو دیکھ کر جو شرمندگی محسوس ہوئی الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی ہم روز محشر اپنے رب کو کیا جواب دیں گے؟ کیا کوئی مجبوری کوئی بہانہ ہمارے کام آئے گا؟ یہ بھائی جو اپنی ٹانگ سے معذور ہے اس نے اس معذوری کو بہانہ بنانا تو درکنار اپنی طاقت بنا لیا وہ ٹانگ جو شاید اس کے جسم سے جڑ کر اس کو فائدہ دیتی اس نے اسی ٹانگ کو گن کا اسٹینڈ بنا ددیا، سلام ہے ان مجاہدین پر اور ان کی ماؤں پر جنہوں نے ایسی بہترین تربیت کر کے امت کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر دیا ایسی کمال تربیت کرنے والی ماؤں کو کون ہرا سکتا ہے۔
اے یہود! ایسا جذبہ رکھنے والے نوجوانوں کو تم کس چیز سے ڈراؤ گے؟ان کا حوصلہ کیسے پست کروگے؟ یہ تو ایک تصویر کی بات ہے سوشل میڈیا پر ایس ہزاروں عزم و ہمت کی داستانیں بکھری پڑی ہیں فلسطینی بوڑھے بچے جوان مرد خواتین مسجد اقصی کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی یہ جنگ وہ اپنے ملک کو بچانے کےلئے نہیں لڑ رہے بلکہ اسلام کو بچانے کے لیے مسجد اقصیٰ کو بچانے کے لیے لڑ رہےاور بے سر و سامان صرف جذبہ ایمانی کے زور پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑےہیں۔
آہ ! کیا کیا مثال دوں، اس بچے کی جو اپنے گھر کے ملبے کے ڈھیر پر بیٹھا قران کی آیات تلاوت کر رہا ہے یا اس خاتون کی جو اپنے شوہر کی شہادت کے بعد اپنےچار بیٹوں کو بھی اس راہ میں شہید کرنے کا جذبہ رکھتی ہے یا اس معصوم بچے کی جو غنودگی اور تکلیف کی حالت میں بھی لا الہ الااللہ کا ورد کر رہا ہے۔
شکریہ اہل فلسطین کہ آپ نے ہماری دم توڑتی امیدوں کو زندہ کر دیا آپ نے ہمارے ایمان کو تازہ کر دیا، اے مسجد اقصی! گواہ رہنا کہ یہ معصوم بچے بوڑھے جوان تمہاری حفاظت کے لیے سر پہ کفن باندھے کھڑے تھے۔
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی