ہم آزاد فضاؤں میں سانس لینے والے لوگ ان مظلوم فلسطینیوں کا درد بھلا کیا جانیں جن کو اسرائیل نے پچھلے 16 سالوں سے محصور کر رکھا ہے۔ فلسطین جو انبیاء کی سرزمین ہے جہاں مسلمانوں کا قبلہ اوّل بیت المقدس موجود ہے۔ وہ بیت المقدس جہاں تمام انبیاء کرام نے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کی تھی۔ اس کے وارث صرف اور صرف مسلمان ہیں اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی تمام مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے صرف فلسطینیوں پر نہیں لیکن افسوس صد افسوس آج فلسطینی تن تنہا اس محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں ایک طرف تو بیت المقدس کو یہودیوں سے آزاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسری طرف اپنی بقا کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں سلام ہے ان ماؤں پر جنہوں نے اپنی کوکھ سے ایسے بچے جنم دیے جن کے لیے یہ دنیاوی زندگی کچھ نہیں جو حیات فانی کے بجائے حیات جاودانی کو مقدم سمجھتے ہیں۔
پچھلے دنوں ایک فلسطینی بچی کی ویڈیو نے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا جس میں وہ تمام معززین دانشوروں اور درد مند دل رکھنے والے لوگوں سے پوچھ رہی ہے کہ آئن انتم ؟ آپ لوگ کہاں ہیں؟ اپ لوگوں کو فلسطینیوں کی بے بسی نظر نہیں آرہی؟ ان پر ہوتا ظلم نظر نہیں آرہا؟ آخر کب تک ہم ظلم کی چکی میں پستے رہیں گے؟ بچے بوڑھے عورتیں اور نوجوان قتل ہوتے رہیں گے ؟ اے اقوام عالم آخر کیوں سب اسرائیل کے سامنے بے بس ہیں؟ کیوں اسے لگام نہیں دی جا سکتی؟ افسوس کسی کے پاس اس بچی کے سوالوں کا جواب نہیں ہے۔
اسرائیل اپنے ناپاک ارادوں (گریٹر اسرائیل کی تکمیل اور مسجد اقصی کی شہادت کے لیے) دن رات معصوم بچوں،عورتوں اور بوڑھوں پر بموں کی برسات کر رہا ہے حتیٰ کہ ہسپتالوں پر بھی بمباری کی جا رہی ہے
اجڑے ہوئے در و دیوار کے پس پردہ دیکھو
کہیں لاشہ ہے کسی لخت جگر کا تو کہیں ماں ہے نڈھال
آفرین ہے ان فلسطینی ماؤں پر جو اپنے بچوں کی تربیت گہوارے میں ہی شروع کر دیتی ہیں اور ان کے اندر جذبہ ایمانی ایسے کوٹ کوٹ کر بھر دیتی ہیں کہ میزائلوں اور توپوں کی گھن گرج انہیں خوفزدہ نہیں کر پاتی اور نہ ہی کوئی طاقت انہیں ان کے منزل مقصود سے بھٹکا سکتی ہے اللہ تعالی امت مسلمہ کی تمام ماؤں کو یہ توفیق عطا کرے کہ وہ بھی اپنے بچوں کی تربیت اسی انداز سے کریں تاکہ امت کو دوبارہ محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی جیسے سپوت مل سکیں جو مسجد اقصیٰ کی پکار پر ببانگ دہل لبیک کہہ سکیں اور اسے ازاد کرانے کے لیے تن من دھن سب کچھ نچھاور کر دیں۔ ورنہ ان کا خون ہم پر قرض رہے گا اور وہ روز محشر ہم سے پوچھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ مسجد اقصٰی اور ارض فلسطین کی حفاظت کی خاطر تو ہمارے معصوم بچوں تک نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اپ نے کیا کیا؟
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل بذات خود کچھ بھی نہیں اس کو سپورٹ کرنے والی طاقتیں دراصل اس کو قوت فراہم کر رہی ہیں خواہ وہ امریکہ ہو یا کوئی اور یورپی ممالک۔ حیف ہے اسلامی ممالک پر کہ ان کا کردار بھی نہ مدافعانہ ہے نہ جارحانہ بلکہ سب اپنے اپنے مفادات کی خاطر ایسے جال میں پھنسے ہوئے ہیں جس کی ساری ڈوریں امریکہ اسرائیل اور یورپی ممالک کے پاس ہیں لہذا ان کی مرضی کے بغیر یہ کوئی بھی قدم اٹھانے کی جرات نہیں کر سکتے۔
کیا ہم اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھول گئے جس کا مفہوم ہے کہ “امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے جب جسم کے ایک حصے میں درد ہوتا ہے تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے” آج فلسطین کا درد ہماری حکومتوں کو کیوں محسوس نہیں ہو رہا خاص کر سعودی عرب ایک خاموش تماشائی کیوں بنا ہوا ہے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ تمام اسلامی ممالک نےخود کو امریکہ بہادر کے پاس گروی رکھ دیا ہے یہ سب آزاد ریاستیں ہونے کے باوجود غلام ہیں اور کوئی غلام اپنے آقا کے خلاف نہیں جا سکتا۔
سن اے جلتی ہوئی وادی فلسطیں
مردہ لوگوں کو آواز دیتے نہیں
ہم وہ پہلے سے مرد مجاہد نہیں
کل تھے افلاک پراب ہیں زیرزمیں
لیکن ان تمام ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں کا دل مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ دھڑک رہا ہے وہ اپنے طور پر ان مظالم کے خلاف پوری دنیا میں سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں، ہر طرف بڑے بڑے مظاہرے اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں، پرائیویٹ طور پر مالی امداد اکٹھا کر کے بھیجا جا رہا ہے، اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کیا جا رہا ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام اسلامی ملکوں کے عوام اپنی اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ بیت المقدس کی آزادی اور فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو روکنے کے لئے کچھ مؤثر عملی اقدامات کریں۔ جب معرکہ حق و باطل میں باطل قوتیں اکٹھی ہو سکتی ہیں تو امت مسلمہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کیوں نہیں بن سکتی؟۔