فلسطین کی تاریخ، مختصر جائزہ (حصہ دوم)

پہلی قسط پڑھنےکیلئے کلک کریں: فلسطین کی تاریخ، مختصر جائزہ (حصہ اوّل)

اسرائیل نے 1948ء کی جنگ میں صرف غزہ اور مغربی کنارہ پرقبضہ نہیں کیا تھا بلکہ جزیرہ نما سینا  کے ایک حصےپر بھی قبضہ جمالیا تھا۔ فلسطینی قوم کو اس بات پر بہت غصہ تھا کہ ہم اتنی بڑی تعداد کے باوجود اسرائیلی فوج کا مقابلہ کیوں نہ کر سکے۔فلسطین اپنا ملک ہر قیمت پر حاصل کرناچاہتا تھا، اس مقصد کو پوراکرنے کے لیے 1964ءمیں تنظیم آزادی فلسطین (Palestine Liberation Organization) وجود میں  آئی۔1967ء میں دوسری عرب اور اسرائیل جنگ ہوتی ہے جس میں پھر عربوں کو شکست ہوتی ہے اور اسرائیل اس جنگ کے بعد مزید مضبوط ہوجاتا ہے اور فلسطین پر اپنا قبضہ برقرار رکھتا ہے۔

فلسطینی اور عرب پھر سے تیاری کرنے لگتے ہیں اور اسرائیل کے ساتھ ایک اور جنگ کرنے کے لیے 1973 ء کومیدان  میں اترتے ہیں مگر اس جنگ کا نتیجہ بھی وہی  آتا ہے جو پہلے آیا تھا۔ تنظیم آزادی فلسطین اپنی جدوجہد جاری رکھتی ہے اور 14 اکتوبر 1974 ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی تنظیم آزادی فلسطین کو فلسطین کی نمائندہ جماعت کے طور پر تسلیم کرتی ہے اور اس کو اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنے ملک کی نمائندگی پر امن طریقے سے پوری دنیا میں کریں اور یہ حق بھی دیا کہ وہ جنرل اسمبلی کے اجلاسوں میں فلسطین کی نمائندگی  بھی کرسکتی ہے ۔اس کے کچھ سالوں بعد مصراور اسرائیل کے درمیان امریکہ کی مدد سے بات چیت شروع ہوگئی  تھی اور یہ بات چیت کامیاب بھی ہوگئی تھی کہ مصر عرب دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے 1979ء  میں اسرائیل کو بطور آزاد ملک تسلیم کرلیا اور مصرکے جس  ٹکڑے پر اسرائیل کا قبضہ تھا وہ واپس مصر کے  حوالے کردیا تھا۔

اس وقت مصر کا وزیراعظم  جمال عبدالناصر تھا جس کے اس عمل سے مصرکے آزادی پرست لوگ خوش نہیں تھے اورانہوں نے 1981 ءمیں جمال عبدالناصر کو قتل کردیا۔ اسرائیل نے غزہ اور مغربی کنارے پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں اسرائیل کو آباد کرنا شروع کردیا  تھا۔ اسرائیلی دوسروں کی زمین پر آباد ہوتے جارہے تھے ور مسلم دنیا یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ بین الاقوامی برادری  نےاس آباد کاری کو اقوام متحدہ کی تقسیم کے منصوبہ  کے خلاف قرار دیا  اور اس آبادی کو غیر قانونی  کہا گیا۔ ہو ا یہ کہ  1992ء میں اسرائیل کا وزیر اعظم  یتزک رابن تنطیم آزادی فلسطین کو  تسلیم کرتا ہے اور تنظیم آزادی فلسطین بھی اسرائیل کو تسلیم کرتی ہے  اور 1993 ء میں اوسلو آکرڈ (Oslo Accord) ہوتا ہے جس کو آپ امن کا معاہد ہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔1994ء میں پہلی دفعہ فلسطین  اپنی حکومت بناتا ہے اور اس کو Palestinian National Authority  کا نام دیتا ہے۔

فلسطین اور اسرائیل کے درمیان اس امن معاہدے میں یہ طے ہوا کہ مغربی کنارے کو تین  حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ۔ اے بی اور سی ، اے  ایریا فلسطین کے کنٹرول میں ہوگا ، بی  ایریا دونوں کے کنٹرول میں ہوگا اور سی ایریا  اسرائیل کے کنٹرول میں ہوگا ۔ اس معاہدے کے تحت فلسطین کو غزہ اور مغربی کنارے میں کچھ علاقے بھی ملنے والے تھے  ۔اسرائیل  بین الاقوامی تقسیم کے منصوبے کے تحت وہ علاقے نہیں دے رہا تھا جس کا فلسطین  بین الاقوامی تقسیم کے منصوبے  کے تحت حق دار تھا۔ اہم بات اس میں یہ ہے کہ اس  پورے عمل میں امریکہ مکمل سرگرم تھا ، اس کو بھی بین الاقوامی تقسیم کے منصوبے کا خیال نہیں آیا۔امن معاہدے کی وجہ  سےاسرائیلی وزیراعظم تیزک رابن اور تنظیم آزادی فلسطین کے سربراہ یاسر عرفات کو 1994 ء میں نوبل امن ایوارڈ سے نوازا گیا  تھا۔ مگر اسرائیل میں انتہا پسند وں نے  اپنے وزیراعظم  کو قتل کردیا اور انہوں نے کہا کہ ہم ایک ٹکڑا بھی فلسطین کو نہیں دیں گے۔ یہ ہماری زمین ہے ، اس کو کہتے ہے ایک توچوری اور اس پر سینہ زوری۔ تاریخ کے مطابق جب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان یہ سب کچھ چل رہا تھا تو اسی دوران میں فلسطین کے نوجوانوں نے  1987ء میں حماس کی بنیاد رکھی مگر یہ تنظیم  1996ء تک خاص سرگرم  نہیں تھی۔1996 ء میں حماس نے دعویٰ کیا کہ تنطیم آزادی فلسطین ایک سیکولر  تنظیم ہے یہ فلسطین کو آزادی نہیں دلواسکتی ہے، اس لیے ہم  نےحماس کی بنیاد رکھی ۔1996ء میں فلسطین میں الیکشن ہوااور حماس نے  الیکشن کا بائیکاٹ  کردیا ۔2002 ء کےقریب دونوں طرف سے یعنی فلسطین اور اسرائیل  کے کناروں یا سرحدوں پر   لوگوں نےپر تشدد احتجاج  ریکارڈ کروایا اور اس احتجاج میں کئی  فلسطینی شہید ہوگئے تھے اور کئی اسرائیلی بھی مارے گئے تھے۔ 2006ء میں فلسطین میں الیکشن ہوا جس میں حماس نے حصہ لیا اور جیت بھی گئی۔ (تحریرجاری ہے)