فلسطین کی کہانی ہم سب جانتے ہیں مگر ایسے لوگ بھی ہیں جو اس کہانی کو نہیں جانتے . بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ آج کل جو فلسطین میں ہورہا ہے اس کا پس منظر کیا ہے؟ فلسطینی اپنی سرزمین میں ظلم کا شکار کیوں ہیں؟ فلسطین کی بہت پرانی تاریخ ہے مگر مختصرا یہ کہ فلسطین پہلی عالمی جنگ میں خلافت عثمانیہ کا حصہ تھا مگر کہا یہ جاتا ہے کہ 19ویں صدیں کے بعد اسرائیل اپنا ایک وطن بنانا چاہتاتھا جس میں یہ دنیا کے مختلف علاقوں سے آکر اس میں آباد ہوجائے۔
آسٹرو ہینگری کے ایک صحافی جس کا نام تھیوڈر ہرزل تھا اس نے1896ء میں اپنے پملٹ میں Zionism کے نام سے اپنے نظریے کا ذکر کیا تھا. اس وقت دنیا میں ایسی تنظمیں تھیں جو اس نظریے کو فالو کرتی تھیں۔وہ تنظیمیں اکثر اس نظریے کا پراپیگنڈابھی کیا کرتی تھیں اور اس نظریے کے فالورز یہودی نوجوان تھے جو دنیا کے مختلف حصوں میں رہتے تھے۔ 19ویں صدی کے آخر میں ایک بہت بڑا یہودی قافلہ فلسطین آکر آباد ہوگیا اور آہستہ آہستہ دنیا کے مختلف حصوں سے یہودیوں نے فلسطین کا رخ کیااور اس وقت فلسطین خلافت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ 1914ء میں پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی اور اس جنگ میں فرانس، برطانیہ اور عرب کے انقلابی خلافت عثمانیہ کے خلاف لڑے تھے۔ عربی انقلابی عرب ممالک سے تعلق رکھتے تھے اور وہ عرب اتحاد کے نام پر یونیفائڈ عرب ملک بنانا چاہتے تھے۔اس پر کسی اور بلاگ میں تفصیل سے بات کریں گے۔
اس تحریر میں ہمارا موضوع فلسطین کی تاریخ ہے۔ جنگ کے دوران برطانیہ نے عرب کے انقلابیوں سے کہا کہ اگر آپ نے خلافت عثمانیہ کے خلاف ہمارا ساتھ دیا تو شکست کی صورت میں فلسطین واپس عربوں کے حوالے کیا جائے گا۔برطانیہ نے اسی طرح خفیہ طورپر یہودیوں سے ڈیل کی تھی کہ اگر آپ کو فلسطین میں اپنی آزاد ریاست چاہیے تو ہمارا ساتھ دیں۔ یہ اصل میں امریکی یہودیوں کو خوش کرنے کے لیے کیا تھا تاکہ امریکہ میں سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے. اس وقت امریکہ میں صدارتی الیکشن ہورہا تھا ۔اس میں اہم بات یہ ہے کہ برطانیہ نے فرانس سے بھی ایک خفیہ ڈیل کی تھی کہ خلافت عثمانیہ کو شکست کی صورت میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا لیکن بعد میں برطانیہ نے فلسطین کا کنٹرول مکمل اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ 1918ء سے 1948ء تک فلسطین پر برطانیہراج کررہا تھا۔
فلسطین کی کہانی میں بعض تاریخ دان کہتے ہیں کہ جب جرمنی میں ہٹلر کو اقتدار ملا اور اس نے یہودیوں کے خلاف کارروائی کی تو جرمنی میں رہنے والے یہودی مختلف ملکوں میں فرار ہوگئے تھے، ان میں سے زیادہ ترنے فلسطین کا رخ کیا مگر برطانیہ نے ان کو منع کردیا تھا۔اس انکار کی وجہ سے یہودیوں کی آزادی کی تحریک Israel Nationalist movement وجود میں آگئی اور اس نے اسرائیل کی آزادی کے لیے جدوجہد شروع کردی تھی۔ تقریبا 1940ء کے آس پاس فلسطین تحریک Palestine Nationalist Movementء بھی وجود میں آگئی اور اس نے بھی آزادی کا مطالبہ کیا تھا۔1948ء میں برطانیہ نے فلسطین سے نکلنے کا فیصلہ کیا اور فلسطین و اسرائیل کا معاملہ اقوام متحدہ پر چھوڑدیا۔ برطانیہ نے اسرائیل اور فلسطین دونوں سے کہاکہ آپ دونوں اپنا الگ الگ ملک بنائے،برطانیہ مداخلت نہیں کرے گا۔
اقوام متحدہ نے 1948ء میں پارٹیشن پلان دیا جس کے تحت فلسطین کے اندر 57فیصد زمین اسرائیل کو دے دی اور 43فیصد زمین فلسطین کودے دی جس کوفلسطین نے مسترد کردیاتھا۔اسرائیل نے خوشی سے اس پلان کو قبو ل کرلیاجس میں اس کو کسی اور کی سر زمین پر آزاد ملک مل گیا۔یہ پلان صرف فلسطین کو قابل قبول نہیں تھا بلکہ پورے عرب کو ناقابل قبول تھا۔بات اتنی بگڑ گئی کہ عرب دنیا نے اسرائیل کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا اور یہ جنگ 1948ء کو عرب اور اسرائیل کے درمیان لڑی جس کو 1st Arab-Israel war کہا جاتا ہے۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ جنگ عرب جو اکثریت میں تھے اسرائیل سے ہار گئے تھے جس کے بعد اسرائیل اور مضبوط ہوگیااور اس میں تعجب کی بات یہ بھی ہے کہ اسرائیل نے فلسطین کے مزید علاقے قبضہ لے لیئے۔ غذہ کی پٹی مصر کے پاس چلی گئی اور مغربی کنارہ اردن کے پاس چلا گیا اور فلسطین کے لوگ اپنے ملک میں کہیں کے نہیں رہے۔تاریخ کے مطابق 1st Arab-Israel war کے بعد 700,000فلسطینی اپنا ملک چھوڑ کر عرب ممالک میں پناہ لینے پرمجبور ہوگئے تھے اور عرب کی شکست پر پوری دنیا حیران تھی اور عرب خود بھی بہت شرمندہ تھے کہ چند لاکھ لوگوں سے اتنے زیادہ لوگ شکست سے دو چار ہوگئے تھے . نقشے میں اگر دیکھا جائے تو اسرائیل فلسطین کے اندر بھی بیج میں ہے چاروں طرف عرب اور فلسطین تھا. پھر بھی شکست نہ دے سکے.اکثر لوگوں کو ایسی صورت میں غصہ بہت آتا ہے کہ ہم اکثریت کے باوجود کیوں ہار گئے تھے.عربوں کو غصہ بہت تھا اور انہوں نے اسرائیل سے بدلہ لینے کی ٹھان لی ۔(جاری ہے)