جب آپ کی عزت نفس مسلسل مجروح کی جائے، بارہا آپ کے ساتھ حقادت سے پیش سے جائے، کیا اس صورتحال میں صرف یہی حل ہے کہ علیحدگی کے رستے کو اختیار کیا جائے، عمومی تعلقات، عمومی رشتوں میں تو یہ حکمت عملی اپنائی جا سکتی یے اور یہ کارگر ہو سکتا ہے کہ آپ لئے دئیے رہیں، خاموشی سے ایسے لوگوں سے فاصلہ اختیار کر لیں۔
صلہ رحمی کے دائرے میں رہتے ہوئے تعلقات نبھائیں مگر خودداری اور عزت نفس پر حرف نہ آنے دیں مگر جب بات آجاتی ہے زوجین کی… اس تعلق کی جس میں پھوٹ ڈلوانا شیطان کا پسندیدہ مشغلہ ہے… سوال اٹھتا ہے، اور بہت اہمیت رکھتا ہے کہ اس کا شافی جواب دیا جائے.کیا عائلی زندگی میں بھی یہ حربہ کارگر یے کہ اس سے مزید مسائل پیدا ہوں گے… کیا یہ درست نہیں کہ خاندان ٹوٹنے کی ایک بڑی وجہ حقائق کا درست ادراک نہ کرنے کے باعث ہوتا ہے، درست حکمت عملی اختیار نہ کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تقویٰ اور خوف خدا ہی اس رشتے کی پائیداری کی بنیاد ہے مگر تیزی سے ٹوٹتے بکھرتے خاندانوں کی اصلاح اور ذہنی اذیت سے بچنے کے لئے کیا کیا جائے جب ہر دو فریق اللہ سے خصوصی تعلق رکھنے کا دعویٰ یا زعم بھی رکھتے ہوں. کیا ہر دوسرے گھر میں پیدا ہونے والی نا چاقیوں کا علاج راستے جدا کرنا ہی ہے، جی نہیں ! در حقیقت ہمیں مذاکرات کی میز پر مسائل حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر کوئی غلط ہے تو یوں خاموشی سے اپنے اس حق سے کیوں دستبردار ہوا جائے جس کا حلف ہم نے اللہ کے نام سے اٹھایا ہے۔ کیا یہ عہد اتنا کمزور ہے اور اللہ کا نام معاذاللہ اتنا بے توقیر ہے کہ پلک جھپکتے میں اپنے اخلاقی و قانونی حقوق سے دستبردار ہوا جائے۔
آئیے! خاندانوں کو ٹوٹنے سے بچائیں، یاد رکھیں نکاح کے نتیجے میں بننے والے رشتے ہر دو زوج کو اخلاقی و قانونی، جذباتی و روحانی طور پر ایک دوسرے کا مقروض کر دیتا ہے۔ لہٰذا اب اگر کوئی فریق دوسرے کا استحصال کرتا ہے، جسمانی حقوق نہیں ادا کرتا یا جسمانی حق سے تو آگاہ ہوتا ہے مگر جذباتی و روحانی طور پر اسے گویا کسی چٹیل میدان میں تنہا چھوڑ دیتا ہے اور دوسرے فریق کی جذباتی تسکین کے لئے کوئی حل پیش نہیں تو یہ سراسر اس مرد یا عورت کی کم فہمی ہو گی کہ محض چکنی چپڑی باتوں کے عوض پوری زندگی ایک چھت تلے گزاری جا سکتی ہے۔ یقیناً ہمیں اللہ اور رسول کے احکام سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔
جب زوجین میں نزاع کی صورت پیدا ہو جائے تو خلع یا طلاق آخری چارہ کار ہے اور اس سے پہلے دونوں زوجین کے خاندان کے اہل حل وعقد کو ایک میز پر بٹھایا جائے گا جو صورتحال کو سمجھ کر اصلاح کی صورت نکالیں گے۔ اب اگر زوجین کو ایک دوسرے سے کوئی خاص شکایت نہیں اور وہ نباہ کرنا چاہتے ہیں مگر کوئی تیسرا فرد خواہ وہ دونوں میں سے ایک کا کتنا قریبی ہی کیوں نہ ہو، فساد پیدا کر رہا ہے، جہالت پر مبنی رویہ کسی صورت چھوڑنے کو تیار نہیں تو زیادتی مرد یا اس کے گھر والوں کی طرف سے ہو تو انہیں تنبیہ کی جائے گی اور اگر عورت یا اس کے گھر والوں کی طرف سے ہو تو انہیں سمجھا کر اصلاح کی صورت نکالی جائے گی،کبھی اپنے حقوق سے بآسانی دستبردار نہ ہوں کیونکہ یہ اپنے نفس پر بھی ظلم ہے اور دوسرے فریق پر بھی۔ ظالم کی مدد یہی تو ہے کہ ظلم پر احتجاج نہ کیا جائے لہٰذا خلع یا طلاق کا فیصلہ کرنے سے قبل دوسرے فریق پر مذاکرات کے ذریعے اتمام حجت ضرور کر لیجئے یقینا اس سے بہت سے گھر ٹوٹنے سے بچ جائیں گے ورنہ دوسری صورت میں اللہ کی عدالت میں تو آپ کا مقدمہ مضبوط ہو ہی جائے گا۔