جرم ضعیفی کی سزا ہمیشہ مرگ مفاجات ہی رہی ہے۔ آج ہم فلسطین کو رو رہے ہیں۔ کبھی ہمارا بین کشمیر پر ہوتا ہے۔ ایک ریلی نکال کر اور ایک یوم سیاہ مناکر ہم اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔ فلسطین میں ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ غزہ کی اس طرح ناکہ بندی کی گئی ہے کہ دواٶں اور بچوں کے لیے دودھ تک پہنچنا مشکل ہوگیا ہے۔ اگر یہ مظلوم اسرائیلی میزائلوں سے بچ بھی گئے تو انہیں بھوک لے ڈوبے گی۔
ہمارے ہاں ایک بڑا طبقہ وہ بھی ہے جو حماس کے اسرائیل پر حملے کو غلطی تصور کرتا ہے۔ یہ طبقہ اس شیر کی مانند ہے جو عرصہ دراز سے پنجرے میں بند ہوتا ہے اور رہائی ملنے پر جب جنگل کا رخ کرتا ہے تو وہاں ایک گیدڑ کو بادشاہ مان لیتا ہے کہ پنجرے میں رہنے کے باعث اسی اپنی طاقت کا ہی علم نہیں ہوتا۔ حماس کے حملوں کو ناقدین ایک غلط فیصلہ تصور کررہے ہیں لیکن ان کو یہ بات مدنظر رکھنی ہوگی کہ حماس نے جو کچھ بھی کیا ہے اس کے لیے یہ سب سے بہتر وقت تھا۔
ہمیں دیکھنا ہوگا کہ حماس نے اسی وقت کا انتخاب کیوں کیا؟ یہ وقت انتہائی اہم اس حوالے سے ہے کہ مسلم خصوصاؐ عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کی پالیسی کی جانب گامزن تھے۔ یہ انہی حملوں کا نتیجہ ہے کہ سعودی عرب جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بالکل نزدیک تھا اپنے ارادوں سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔ سعودی عرب کی طرح وہ اسلامی ممالک بھی جو امریکی دباؤیا دیگر وجوہات کی بنا پر اسرائیل کے ناجائز وجود کو ماننے کی طرف جارہے تھے اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اگر مسلم ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کاسلسلہ شروع ہوجاتا تو فلسطین کاز بہت پیچھے رہ جاتا اور ایک ناجائزریاست کو جائز تسلیم کرنے کا عمل فسطینیوں کو بہت یچھے لے جاتا۔ فلسطینی مسلمان آج جس مقصد کے لیے قربانی دے رہے ہیں وہ صرف ان پر فرض نہیں ہے۔ بیت المقدس کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے لیکن بحیثیت مجموعی ہم اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ ہم سے اس کے لیے آواز تک نہیں اٹھتی ہے۔
فلسطینی اپنی جانوں کا نذرانہ آج سے نہیں دے رہے ہیں اس کی ایک طویل تاریخ ہے۔ آزادی حاصل کرنا ہر قوم کا بنیادی حق ہے۔ آپ اس حق کو دہشت گردی کا لبادہ نہیں اوڑھا سکتے ہیں۔ؒ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ حماس کے اسرائیل پر حملے اس کے ظلم کے خلاف ردعمل تھے لیکن اس کے مقابلے میں اسرائیل کی طرف سے جو بربریت کی جارہی ہے اس پر عالمی دنیا کی خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ ان کے ضمیرمرچکے ہیں۔ مسلمان ملکوں کی نمائندگی کرنے والی او آئی سی جیسی تنظیمیں اپنی افادیت کھوچکی ہیں۔ حماس کی جنگ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں کا اجتماعی مسئلہ ہے۔
ہمیں اب او آئی سی جیسے کمبل سے جان چھڑاتے ہوئے ایک نئی شروعات کی ضرورت ہے۔ فلسطین کے ایک نکاتی ایجنڈے پر تمام مسلمان ممالک کو اکٹھے ہونا ہوگا ۔کوئی بھی بڑا اسلامی اس کی ذمہ داری لے سکتاہے۔ فلسطین میں فوری جنگ بندی عالمی امن کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
دنیا کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ ایک ناجائز ریاست کی سرپرستی اور اس کی پشت پناہی سے آپ دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کےدلوں میں نفرت کے بیج بورہے ہیں۔ ہم ان مسلمان ممالک کے حکمرانوں کو تو اپناہم نوا بناسکتے ہیں لیکن وہاں کے عوام کی سوچ مختلف ہے۔ وقت زیادہ نہیں گزرا ہے۔ دنیا کو فلسطین کے مسئلےپرایک گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے بصورت دیگر غزہ سے نکلنے والی آگ کی چنگاریاں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں۔