احسان فراموش یہود کی بربریت

ہٹلر کا یہ تاریخی جملہ سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے جب اس نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کو قتل کرنے کے بعد کچھ کو زندہ چھوڑتے ہوئے کہا تھا کہ: ” میں انہیں اس لیے چھوڑ رہا ہوں تا کہ دنیا دیکھے کہ میں نے انہیں کیوں مارا تھا،”

پوری دنیا سے دھتکاری ہوئی قوم کو مسلمانوں نے اپنے ہاں پناہ دی، ان کے دکھوں کا مداوا کیا ،انہیں حقوق دئیے،ان کے ساتھ بھائی چارے کا برتاؤ کیا۔ حالانکہ یورپ سے نکالے جانے والے یہودی در در کی ٹھوکریں کھا رہے تھے۔ جرمنی ہٹلر کی انہیں موت کی چکی میں پیس رہا تھا، راندہ درگاہ یہودی جب چین وسکون کی زندگی سے محروم ہو گئے تھے تب مسلمانوں نے ہی انسانی ہمدردی کے تحت انہیں اپنے ملک میں رہنے دیا اور موت کے منہ میں جانے سے بچایا۔ لیکن احسان فراموش یہودی آستین کا سانپ نکلے کہ موقع پاتے ہی اپنے محسن کو ڈسنا شروع کیا۔

بالفورڈڈیکلیریشن کے تحت  اسرائیلی ریاست کا اعلان ہی دراصل مسلمانوں کی پیٹھ میں گھونپا ہوا خنجر تھا، ایک سوچی سمجھی چال کے تحت یہودیوں کو فلسطین میں آباد کر کے مسلمانوں کے لیے گویا ایٹم بم نصب کیا گیا۔ یہودی کبھی اپنی شاطرانہ چالوں اور کبھی معاہدے کے تحت فلسطینی علاقوں پر قابض ہونے لگے۔ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے، ترکی اور عرب قوم پرستی کا تصادم کرنے، اور سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کرنے والوں میں مغربی سیاست کے ساتھ یہودی فتنہ ساز ذہن بھی ہمیشہ سے کارفرما رہا ہے۔ ان کے کرتوتوں کی فہرست بہت طویل ہے۔

گزشتہ پچھتر سالوں سے فلسطینی مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ وقتا فوقتا غزہ پر بمباری کرنے ،فائرنگ کر کے معصوم شہریوں کو شہید کرنے کی کاروائیوں میں شروع سے ملوث رہا ہے، اور اب تو کھلم کھلا جنگ مسلط کر کے غزہ شہر کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ اسرائیل کی اس حرکت پر دنیا خاموش تماشائی کا کردار عمدگی سے نبھا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کو چپ لگ گئی ہے، عالمی ادارہ انسانی حقوق مسلمانوں کے سلسلے میں ہمیشہ سے چشم پوشی کا وطیرہ اپنائے ہوئے ہے۔ بوسنیا، روہنگیا، کشمیر میں انسانیت سوز واقعات اور سربرینیکا کے مسلمانوں کی حالت زار تو پوری دنیا نےاپنی آنکھوں سے دیکھ رکھی ہے کہ کس طرح پچاس ہزار مسلمانوں کو ایک ہی دن میں گولیوں سے بھون دیا گیا۔ خواتین اور بچوں کے سامنے ان کے گھر والوں کوبے دردی سے چھلنی کیا گیا، دنیا اس کو نہیں بھولی۔ اقوام متحدہ کی نام نہاد امن فوج کی پشت پناہی میں ابلیس کا وہ رقص شروع ہوا کہ انسانیت شرما گئی۔ ایسے میں ہم خود ساختہ مہذب دنیا یا ادارہ انسانی حقوق سے کیا امیدیں وابستہ رکھ سکتے ہیں۔

 فلسطین سے مسلمانوں کا خاتمہ کرکے گریٹراسرائیل کا قیام یہودیوں اور مغربی ممالک کا دیرینہ خواب ہے، اس خواب کا شرمندہ تعبیر ہونا فلسطین کے خاتمے سے مشروط ہے۔ اپنے اس مقصد کے حصول کو ممکن بنانے کے لیے اسرائیل جس بربریت کا مظاہرہ کر رہا ہے اسے دیکھنے اورسمجھنے کے باوجود دنیا کچھ بول اور کر نہیں رہی۔ گزشتہ کئی دنوں سے غزہ پر بد ترین بم باری ہو رہی ہے، چار ہزارافراد شہید ہوچکے ہیں ہزاروں افراد زخمی اور لاکھوں بے گھر ہو گئے ہیں۔ عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں، ہزاروں بچے یتیم ہو گئے، خواتین کے سہاگ اجڑ گئے، ماؤں نے اپنے بچوں کو کھو دیا، ضعیف والدین کے پڑھاپے کا سہارا اور انہیں قبر میں اتارنے والے خود مٹی تلے جا سوئے یا ملبے تلے دفن ہو گئے۔ شہدا کی تعداد اتنی ہے کہ انہیں دفنانے والا کوئی نہیں۔ مردہ خانے بھر گئے ہیں، شہید ہونے والوں کو اب آئس کریم ٹرکوں میں رکھا جا رہا ہے۔ ظلم کی انتہا ہے کہ شیر خوار بچوں کو بھی نہ بخشا گیا۔ ماؤں کی گود ویران کر دی گئیں، جس نے دنیا میں آکر ابھی ٹھیک طرح سے رونا بھی نہیں سیکھا تھا اسے بھی لہو میں نہلایا گیا۔ کتنوں کے والدین انہیں بے رحم دنیا میں تنہا چھوڑ گئے۔ ایسے بچے بھی ہیں جنہوں نے پورے خاندان کو مرتے دیکھا اور ہوش و حواس کھو بیٹھے ہیں۔

یہود کی دھوکہ بازی اور سفاکی اور کیا ہو گی کہ فلسطینیوں کو زبردستی علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا، انہیں محفوظ راستہ کا بتا کر ان پر بم برسایا اور قافلوں کو راستے میں ہی ختم کر دیا۔ فلسطین میں ہر طرف بربادی، چیخ وپکار، کٹی ہوئے اعضا، بکھری ہوئی لاشیں، آگ اور لہو کا راج ہے۔ جنگی قوانین کی جتنی خلاف ورزی اسرائیل نے کی ہے وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ فاسفورس بموں کی بارش کر کے انسانوں کوجلا کر مار دیا گیا۔ یہود کی سفاکی اپنی جگہ لیکن دنیا اور خاص کر مسلم ممالک کی خاموشی پر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ اسلامی ممالک کے لئے متحد ہونے اور عالمی طاقتوں کا غرور خاک میں ملانے کا یہ سنہری موقع ہے۔ اپنی تمام تر طاقت اور وسائل کا استعمال کر کے اسرائیل کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا۔ لیکن ! یہ محض دیوانے کا خواب ہے۔ نہ اسلامی ممالک نے متحد ہونا ہے اور نہ ہی امریکہ کو ناراض کرنے کی غلطی مول لینی ہے۔ مصر اور اردن امریکہ کی جیب میں ہیں۔ عرب ممالک اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا چکے ہیں، پاکستان کے ہاتھ سے کشکول گدائی نہیں چھوٹتی۔ اسے پھینک کر ہتھیار اٹھانے کی طاقت اس کے ناتواں بازووں میں ابھی نہیں آئی۔ ترکی اور ایران کی دھمکیوں سے کچھ ہو نہیں رہا۔

فلسطینی مسلمانوں پر قیامت کی گھڑی آئی ہوئی ہے۔ کربلا کا میدان سجا ہے تیغ ستم تلے اس بار خاندان رسولﷺ کی جگہ امت رسولﷺ ہے۔ ان پر پانی بند کر دیا گیا۔ گھر مسمار ہوئے، بجلی نہیں ہے خوراک نہیں ہے دوائیوں کا ذخیرہ ختم ہو چکا ہے۔ قبلہ اول میں اُمت محمدﷺ کی بے کسی پر دل پھٹ رہا ہے۔ مسلمانوں کی بے غیرتی اور سیاست دانوں کی بے حسی دماغ کو ماوف کر رہی ہے، انہیں اپنے معاملات سے فرصت نہیں مل رہی، اس قیامت کو دیکھ کر بھی اگر ان میں غیرت نہیں جاگی تو انہیں صور اسرافیل ہی جگائے گا۔