غارِ حرا سے نکل کر غار ثور میں پناہ لینے تک ایک الگ تہذیب کا اعلان ہو چکا تھا۔ جس کا نام اسلامی تہذیب ہے۔ اور اسلامی تہذیب کے اس عظیم سپہ سالار کی وہ شہرہ آفاق بات کانوں میں گونجتی ہے کہ
“فلا تخزن ان اللہ معنا “
“خوف نہ کھاؤ، اللہ ہمارے ساتھ ہے”
اللہ کی راہ میں جہاد اسلحے اور افرادی قوت سے نہیں بلکہ خدا کی مدد اور مخلص قیادت کی سمجھداری سے ہی کیےجا سکتے ہیں۔ خدا کی راہ میں نکلنا جس کی شرط اوّل ہے۔ اور ہر حال میں نکلنا جس کی شرط دوم ہے، ہلکے ہو یا بوجھل نکلو۔ پھر کہیں جا کر دعائیں قبول ہوتی ہیں اور فرشتے اترتے ہیں۔ یوں زبانی جمع خرچ اسکی روح بلکل بھی نہیں۔
یہی وہ اعتماد تھا جس کی بنیاد پر جنگ بدر میں 313 بھی ہزار پر غالب تھے۔ اپنے ساتھیوں کے مشوروں کو اہمیت دینے والے میرے ان سپہ سالار نے اپنی رائے بدل کر پہاڑی کے اوپر خیمہ لگا کر ثابت کیا کہ امیر جنگ بھی ہمیشہ شوریٰ کی مان کر چلتا ہے۔ اور انکی رائے ک احترام کرتا ہے۔
غزوہِ احد میں سپاہیوں کو پہاڑ پر کھڑے رہنے اور ہر حال میں پہرہ دینے کی ہدایت دینے والا یہ سپہ سالار جنگی چالوں سے خوب واقف ہے، اور اطاعتِ امر کا سبق سکھانے کے باوجود غلطی کرنے والوں کو معاف کر کے عفو درگزر کی مثال قائم کی۔
میدان کار زار میں دندان مبارک شہید کروا کر یہ ثبوت دیا کہ معرکے میدان میں ہوتے ہیں، کامیابیوں کے لیے ماریں کھانی پڑتی ہیں۔
؎ ۔ نہ مسجد میں نہ بیت اللہ کی دیواروں کے سائے میں
نمازِ عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سائے میں
خندق کے معرکے میں پتھر کو ضرب کاری سے توڑنے والے اس سالار جنگ نے ثابت کیا کہ سالار کو خود طاقت میں سب سے بڑھ کر ہونا چاہیے۔
؎ ۔ ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
اخزاب کے معرکے میں موت سامنے دیکھ کر قدم نہ روکنے والا سپہ سالار
تبوک کے معرکے میں وسائل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے صحابہ کو تحریک دینے والا سپہ سالار
خیبر کے معرکے میں علی کو تلوار تھما کر پیٹھ تھپتھپا نے والا سالار
حنین میں پہاڑی درّوں میں دشمن کو پھنسا کر مار گرانے والا یہ سالار۔
تاریخ اس حقیقت کی بھی گواہ ہے کہ اسلامی افواج نے جنگ میں پہل کبھی نہ کی، لیکن گھوڑے تیار رکھے۔ کہ دشمن حق کے خلاف قدم اٹھائے اور وہ اسے مسل دیں۔
جنگوں سے پہلے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ میرے نبیﷺ نے ریاست قائم کی اسکی سرحدیں بنائیں، امن کے لیے معاہدے کیے اور انکا پاس کیا، لیکں وعدہ خلافی کرنے والوں کو سزا سنائی۔ اور اللہ کے اس قانون میں کوئی سفارش نہ کی۔ کوئی نرمی نہ برتی۔
تمام جنگی اصول میرے نبی نے بنائے، قیدیوں کو قتل کروانے کی بجائے فدیہ طے کرنا،
جنگ میں انسانی املا ک کو نقصان پہنچانے سے منع فرمانا۔
مقتول کی لاش کا مثلہ بنانے کو غیر انسانی فعل قرار دینا،
عورت اور بچے کو قتل کرنا تو بہت بڑی بات ہے۔ آپ نے درختوں کو بھی بے وجہ کاٹنے سے منع فرمایا
اور آج یہ نام نہاد ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے غنڈے اور یو این او کے بدمعاش اسلام کو دہشت گرد کہتے ہیں جنکی ناجائز اولاد اسرائیل کی بمباری کبھی ہسپتالوں پر اور کبھی پناہ گزینوں کے خیمے جس کا شکار ہوتے ہیں اور معصوم بچوں کی نعشیں اس بات ک ثبوت ہیں کہ دہشت گرد خود اسرائیل اور اس کے خواری ہیں۔
سورۃ توبہ کے مضامین بتاتے ہیں کہ وعدہ خلاف قبائل کو بھی نوٹیفیکیشن کے زریعے مہلت دی گئی۔ اس کے بعد چڑھائی کی گئی۔
دوران جنگ بھی توبہ کی گنجائش موجود تھی۔ پناہ لینا چاہیں تو پناہ بھی دی جائے اور ایسی پناہ جس میں حفاظت بھی ہو گی۔ اسلام، اسرائیل اور اسکے حواریوں کے بر عکس بڑے پیمانے پر قتل و غارت کے زریعے نسل کشی نہیں کرنا چاہتا، بلکہ وہ اس سرزمین کے اصل خالق کے نظام کا غلبہ چاہتا ہے ایسا غلبہ جس میں اس زمیں پر خدائے واحد کی بندگی کی جائے گی۔ سود ختم کیا جائے گا اور شرک کی جڑ کاٹ پھینکی جائے گی۔
میرے نبیﷺ وہ سپہ سالار ہیں جن میں لیڈرشپ کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔
ساتھیوں کا حوصلہ بلند رکھنا،
جذبہ جہاد ابھارنا،ثابت قدم رہنا، اپنے فیصلوں پر اعتماد ہونا اور ان ہر قائم رہنا، اور توکل علی اللہ سب سے قیمتی متاع سمجھنا،
یہ وہ سپہ سالار ہیں جنکو اپنا عقیدہ اپنی جان سے بڑھ کر عزیز تھا،
وہ کبھی تھکے نہیں، کبھی جھکے نہیں
اطلاع ملتے ہی تیاری و روانگی۔
؎ نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پرسوز
يہی ہے رخت سفر مير کارواں کے ليے
لوگوں سے انکی صلاحیتوں کی بنیاد پر کام لینا، جبھی تو علی کو شیر خدا بنا دیا اور خالد ابن ولید سیف اللہ کہلائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر سپاہی کے دل میں خوف خدا پیدا کیا۔ ہر کوئی جنگ میں حاصل کیا ہوا مال بیت المال میں جمع کروائے گا۔
اور خود وہ سپہ سالار ہیں کہ جن کے گھر میں مال غنیمت کے ڈھیر لگ جاتے مگر سب برابر تقسیم ہو جاتا اور وہ خالی ہاتھ جھاڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
یہ وہ سپہ سالار ہیں کہ جس نے ہند اور حبشی کو اپنے چچا حمزہ کا خون معاف کر دیا۔
یہ وہ سپہ سالار ہیں جو قیدیوں کی ہتھکڑیاں ڈھیلی کروا دیتے ہیں۔
اپنے ساتھیوں میں جذبہ شہادت ابھارنے والے یہ سپہ سالار اپنے قافلے کی آنکھ کا تارا تھے اور آج ہمارے راہنما بھی وہی ہیں۔ بے شک اسلام تو جنگ بھی اصولوں پر کرنے کا قائل ہے کہ جس میں انسانیت ک پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔
سالار کارواں ہے میر حجاز اپنا