حکمرانوں کے لیے عیش اور سرمستی کی زندگی گزارنا اپنی سلطنت کی بقا کے لیے ہر جائز اور ناجائز حربہ کرنا کون سا مشکل ہے۔
قوم کے پیٹ کاٹ کر اپنے خزانوں کے منہ بھرنا ان کی عادت رہی ہے۔ عوام کی زندگی خزاں رسیدہ کر کے اپنی زندگی میں بہار کے رنگ بھرنا ان کا شوق ہے اپنی نفسانی خواہشات کو شریعت کا لبادہ اوڑھانا اور خود غرضی، انا پرستی کو مقدس آئین کا درجہ دینا ان کے لیے آسان کام رہا ہے۔
لیکن اپنے دین کی حفاظت کے لیے اللہ تعالی اپنے جن بندوں کو چنتے ہیں ان کی شان اوروں سے نرالی ہوتی ہے ان کی عادات و اطوار دوسروں سے ممتاز ہوا کرتی ہیں۔
تاریخ اسلام کے افق پر یہی درخشاں ستارے اندھیری رات کے مسافروں کو منزل کی جانب رہنمائی دیتے ہیں اپنی ایثار اور قربانی اور خوف اخرت کی بدولت مسلمانوں کی لاج رکھتے ہیں خود لٹ پٹ کر امت کی تسکین کا سامان کرتے ہیں اور مسلمانوں کا غم اپنے اوپر اتار لیتے ہیں اگر یہ غم پہاڑوں پر ڈال دیا جائے تو وہ بھی کرب سے کوئلہ بن جائے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی تاریخ اسلام کا وہ چمکتا ستارہ جن کا نام سنتے ہی ایمان والوں کا خون جوش مارنے لگتا ہے بیت المقدس کی آزادی عالم اسلام کے بچے کا بچے بچے کا خواب رہی ہے آپ ہی وہ اللہ کے ولی ہیں کہ جنہوں نے قبلہ اوّل کو کافروں سے آزاد کرایا پہلی بار اس کو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں فتح کیا گیا تھا اس کے بعد حکمرانوں کی کم حمیتی نے اور امت کی جہاد سے دوری کی وجہ سے کافروں نے دوبارہ اس پر حملہ کر دیا بیت المقدس کا مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھن جانا عالم اسلام کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا اس سے مسلمانوں میں کم ہمتی اور مایوسی پھیل گئی دوسری جانب صلیبی جنگجوؤں کے حوصلے اتنے بلند تھے کہ انہوں نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر چڑھائی کا ارادہ کیا روضہء اطہر سے متعلق گستاخانہ، توہین امیز کلمات اور ارادوں کا اظہار کیا اس وقت میں عالم اسلام کو کسی مجاہد کی ضرورت تھی جو میدان جہاد میں نکل کر صلیبی سیلاب کے راستے میں بند باندھ سکے، ایک ایسا قائد جو عوام الناس کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہوا ارض مقدس اور مکہ مدینہ کی حفاظت کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا جذبہ رکھتا ہو، ایک ایسا مجاہد جو جہاد کو عبادت سمجھ کر کرے اور اس کو اپنی زندگی کا حاصل بنا لے۔
سب سے پہلے صلیبیوں کے خلاف جہاد کا اغاز عماد الدین زنگی رحمت اللہ علیہ نے کیا ان کی شہادت کے بعد ان کے بیٹے نور الدین زنگی رحمۃ اللہ علیہ نے اس جہاد کو اگے بڑھایا وہ بیت المقدس کی ازادی کو اللہ تعالی کے قرب کا ذریعہ سمجھتے تھے، اللہ تعالی نے ان کو بڑی فتوحات سے نوازا 50 شہر کافروں کے قبضے سے چھڑائے لیکن فتح بیت المقدس کسی اور کے نصیب میں تھی ان کے بعد یہ ذمہ داری ان کے سپہ سالار صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے کاندھوں پر اگئی۔
27 رجب سن 583 ہجری کو سلطان بیت المقدس میں داخل ہوئے اور 90 برس بعد جمعہ کی نماز ہوئی اور تکبیر کی صدائیں بلند ہوئیں خلاصہ یہ ہے کہ کفر اور فتنے کا زور توڑنے کے لیے اللہ تعالی نے مسلمانوں کو قتال کا حکم فرمایا ہے اج ہم اسی راستے کو اختیار کر کے ہی کفر کا زور توڑ سکتے ہیں
جس راستے کو اللہ تعالی نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پسند کیا اور پیارے نبی اخر الزمان نے اسی راستے کو اپنی امت کے لیے چھوڑا اور فرمایا کہ اگر تم نے اس راستے کو چھوڑ دیا تو تم پر ذلت مسلط ہو جائے گی یہ ذلت اس وقت تک مسلط رہے گی جب تک کہ تم پھر اس راستے کی طرف لوٹ نہیں آؤ گے اب اگر امت جہاد کو چھوڑ کر کسی اور طریقے سے ذلت کو ہٹانا چاہے تو کبھی بھی نہیں ہٹا سکتے۔۔۔۔
سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ دین کی اصل حقیقت کو سمجھتے تھے کہ کفر کا زور توڑنے کے لیے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی پہلے میدان بدر میں نکلے پھر فتح کی دعائیں کی۔۔۔۔۔۔۔۔
آج پھر امت کو صلاح الدین ایوبی کا انتظار ہے۔