انبیاء کی سرزمین فلسطین

میں سوچتی تھی کہ غزوہ بدر کیسے ہوا ہوگا، جہاں دماغ سارے وسائل دیکھتے ہوئے کہہ رہا ہو کہ یہ جنگ کا وقت نہیں نہ افرادی قوت ہے نہ وسائل لیکن وہ دماغ کے نہیں دل کے فیصلے تھے۔ بالکل ایسے ہی جیسے غزہ میں حماس نے دل کے فیصلے کو ترجیح دی اور وقت کے فرعون کو للکار دیا۔ کبھی سوچا ہے؟ ان یہودیوں کو صرف مسجد اقصٰی کے عشق میں گرفتار لوگوں سے ہی کیوں تکلیف ہے؟ کیوں بلبلا کر غزہ پر ٹوٹے پڑ رہے؟ ایسا لگ رہا جیسے کوئی بد مست ہاتھی ہے جو نشے میں چور سب کو روندنا چاہتاہے، سب کون، وہ معصوم بچے جن کو ابھی ٹھیک سے بولنا تک نہیں آیا، وہ نوجوان جو اس کیریئر بنانے کی فکر کے بہ جائے میدان جنگ میں مصروف ہیں۔ وہ خواتین جو اس وقت گود کے بجائے اپنے بچوں کو جہاد کے لیے تیار کر رہی ہیں، وہ بوڑھے جو آرام کرنے کے بہ جائے قبلہ اول بچانے کی فکر میں گھل رہے ہیں۔ کیوں وہ لوگ ہی کیوں؟ کبھی سوچا ہے ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ یہ یہودی و نصرانی جانتے ہیں کہ یہ باقی مسلمانوں جیسے سوئے ہوئے لوگ نہیں ہیں۔ یہ فلسطینی ہی اصل میں عشق زادے ہیں۔ اپنے رب کے، اپنے آخری نبی صل اللہ علیہ والہ وسلم کے۔

یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا کی تاریخ بدلنے کے لیے پروان چڑھ رہے ہیں۔احادیث میں جس کی پیشن گوئی ہے یہ جو اسٹیج تیار ہورہا ہے ناں اس میں سب کے کردار رب کے پاس لکھے جا رہے ہیں کس نے کتنا، کب تک ساتھ دیا اور کون تماشائی بنا رہا۔ اس وقت آزمائش ان عشق زادوں کی نہیں ہے پوری امت مسلمہ کی ہے، وہ تو سرخرو ہورہے ہیں، زندہ رہ کر بھی شہادت کے جام پی کر بھی۔

اصل آزمائش تو ان کی ہے جو اختیار ہونے کے باوجود مذمت پر اکتفا کر کے بیٹھے ہوئے ہیں اور کچھ تو مذمت بھی نہیں لاتعلقی کی چادر میں چھپے ہوئے ہیں۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ 57 ممالک کی فوج رکھتے ہوئے بھی اپنی جان و مال، اپنے مفاد کی خاطر گونگے کا گڑ کھائے بیٹھے ہیں۔ سلام ہے ان بہنوں پر، سلام ان بھائیوں پر، سلام ہے ان معصوم پھولوں پر اور ان کے حوصلوں پر کہ ایک بچہ جس کی اتنی اعلیٰ تربیت ہے کہ اپنے سے چھوٹے بھائی کو دم آخر کلمہ پڑھا رہا ہے۔

اس وقت دین پوری امت مسلمہ سے جان و مال کی قربانی مانگ رہا ہے، ابھی دین کی پکار پر لبیک نہیں کہا گیا تو اللہ کیلئے مشکل نہیں ہے کہ سوئی ہوئی قوم پر نہ ختم ہونے والا عذاب مسلط کردے اور ان جذبہ ایمانی سے لبریز، محدود وسائل میں لڑنے والوں کی مدد کیلئے کسی دوسری قوم کو کھڑا کر دے۔جو لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم اتنی دور ہیں ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہم تو بس دعا ہی کر سکتے ہیں تو وہ جان لیں کہ دعائیں بھی اس وقت رنگ لاتی ہیں جب سو فیصد اپنے اختیار کے مطابق کوشش کی گئی ہو۔ اللہ کی نصرت صرف دعاؤں سے نہیں اترتی اپنی پوری جان لڑانی پڑتی ہے، اس وقت مسلم عوام کے ہاتھ میں، قلمی جہاد، لسانی جہاد اور مالی جہاد ہے۔ اپنے قلم کو حرکت میں لائیں، اپنی زبانوں سے غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہیں اپنے مال جس حد تک ممکن ہو مظلوم فلسطینیوں کی مدد کیلئے بھیجیں۔

وہ جو کہتے تھے کہ سیاست اور الیکشن سے کیا لینا دینا کوئی بھی حکمران ہو ہمیں تو بس امن اور سہولیات چاہئیں، تو وہ سن لیں کہ اس وقت کسی دلیر حکمران کی ہی ضرورت ہے جو اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ سکے کہ ہم ہیں غزہ کے ساتھ، جنگ نہیں روکو گے تو اپنے میزائل استعمال کریں گے لیکن یہاں سارے مسلم ممالک کے حکمران بے غیرت بنے بیٹھے ہیں۔

عوام احتجاج کیلئے چوبیس گھنٹے بھی سڑک پر کھڑی رہے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑنا، جب تک موجودہ حکومت کے گریبان نہیں پکڑیں گے، پوری عوام مل کر ان سب کا گھیراؤ نہیں کرے گی اور ان پر دباؤ نہیں ڈالے گی کہ آپ اسرائیل کے خلاف بیان بلکہ مزاحمت کا اعلان کریں۔ ذیادہ سے زیادہ کیا ہوگا ہمارا سوشل بائیکاٹ کردیں گے، ہمیں فرق نہیں پڑتا ہم تین وقت کے بجائے ایک وقت کھالیں گے۔لیکن اللہ کا واسطہ یہ ظلم بند کروادیں، لوگ وہ ویڈیوز دیکھ کر ڈپریشن میں جا رہے ہیں، کوئی ان دنوں کیسے خوشی مناسکتا ہے، کوئی کیسے سکون کی نیند سو سکتا ہے کیا کلیجے نہیں کاپنتے کیا اپنا وجود تصور میں وہاں محسوس نہیں ہوتا؟ کیا ہم اندر سے مرچکے ہیں، ہمارے ضمیر مرچکے ہیں؟