صیہونیت کاآغازکرنےوالا راتھس چلڈجرمنی میں 1743 عیسوی میں پیداہوا۔ اسکاباپ زرگرتھا۔ اس نے اپنےباپ سےسودی لین دین کی تمام باریکیاں سیکھ لی تھیں۔ وہ ہناؤکےنہایت دولتمندشہزادےولیم سے قریبی تعلقات استوارکرنےمیں کامیاب ہوگیا۔ یہاں تک کہ جب شہزادےکوملک سےفرارہوناپڑاتواس نےچھ لاکھ پاؤنڈکی کثیررقم امانت کےطورپراسکےپاس رکھوائی۔ اس رقم سےاس نےکام کاآغازکیا۔ اس نے صیہونیت کی اعلی کونسل قائم کی۔ اپنےقابل ترین بیٹےکےذریعےلندن میں بین الاقوامی تجارتی بینک کی بنیادڈالی۔
غبن شدہ رقم سےسوناخریدا۔ برطانیہ کی حکومت نےاس سےیہ سوناخریدلیا۔ لیکن اسپین کی مہم کےلیےاسےسکوں کی ضرورت تھی۔ ناتھن نے اس سےدوبارہ سوناخریدااورکمیشن پرضروری رقم برطانیہ کےحوالےکی۔ یہ سودا راتھس چلڈ خانوادے کےلیے بےحدوحساب دولت کےانباروں کااغاز تھا۔ راتھس کےپانچ بیٹےتھے۔ اس نےبرلن، وہانا، پیرس اورنیپلزمیں بھی بینکوں کی شاخیں کھول لیں۔یہ لوگ ہرروزتلمودکی تلاوت کرتےاوروقتافوقتا فلسطین میں زمینیں خریدکروہاں غریب یہودیوں کی ابادکاری بھی کرتےرہتےتھے۔
یہودکی حکمت عملی: تسخیرعالم کاعظیم منصوبہ راتھس چلڈکےدورمیں طےپایا۔ اج امت کی غفلت کےباعث وہ پوری دنیاکی معیشت اورسیاست پر قابض ہیں۔ صیہونیت کی اعلیٰ کونسل کےافراداور یہودی بنکاروں کےوفاق کےسربراہ اورارکان کمیٹی بہترین تربیت اورعقل وفراست کےحامل ہوتےہیں۔ ان کےوسائل غیرمحدوداورتجربات وسیع ہوتےہیں۔ ذرائع ابلاغ انکی مٹھی میں ہیں۔ سپرپاورممالک کے سربراہ بڑےغوروخوص کےبعدمنتخب ہوتےہیں اور سالوں انکی ذہن سازی کی جاتی ہے۔
تجارت اورجنگ میں کامیاپی کی بنیاداطلاعات پرہوتی ہے۔یہ لوگ نبض عالم پرہمہ وقت نظررکھتے ہیں۔ یہودیوں نےاپنی دولت کےبل پرذہین افرادکو خوب خوب استعمال کیالیکن اندرونی رازکسی کونہ دیا۔ سودکوشیرمادرکامقام دیاگیا۔ اپنی دولت سےمزیددولت پیداکرنااورمزیدانسانوں کوغلام بناناانکامقصودہے۔ اسلامی ملکوں کوٹکڑے ٹکڑےکیےبغیر یہودی منصوبہ مکمل نہیں ہوسکتالہٰذاعرب اورترک قومیت کےبت ابھارکرسلطنت عثمانیہ کےخاتمہ کیا گیا۔ مسلمانوں کوتوڑنےکےلیےگھناؤنی سازشوں میں مصروف رہے اور ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک اپنےمرکزی بینک سےقرضہ لےکر معمولی سوداداکرتےہیں اورپسماندہ ممالک کوبھاری شرح سودپرقرضےدیتےہیں۔ یہودیوں کےبین الاقوامی بینک جب چاہیں کسی بھی ملک کی کرنسی کو گھٹا بڑھاسکتےہیں۔ ترقی پذیرممالک کے خام مال کو کوڑیوں کےمول لیاجاتاہے۔ انکےسکےکی قیمت گرادی جاتی ہے۔ ان ملکوں کامزدور، کسان اورعام ادمی ان بنکاروں کےلیےخون پسینہ بہاتارہتاہے۔ اس کرہ ارض کوغریبوں اورناداروں کےلیےمزیدجہنم بنانےکااس سےمجرب نسخہ دستیاب ہوناناممکن ہے۔
یہ بین الاقوامی بینک اب ایسادیوبن چکےہیں کہ دنیاکی کوئی طاقت انکےرازوں سےواقف نہیں۔ انہیں ہرسال نیابیج ڈالنانہیں پڑتاایک بجائی صدیوں تک پھل دیتی ہے۔ آج دنیاکانقشہ کچھ یوں ہےکہ بنکاریہودی، ٹھیکےدار یہودی، انتظامی افسریہودی، سفیدپوش ملازم عیسائی البتہ مزدورمسلمان۔
سفاک چہرہ: جنگ یہودکی کھیتیاں ہیں۔ سولہویں صدی کےبعدسےتمام جنگیں یہودکی پیداوارہیں۔ جنگ خونی کھیل ہےمگریہودی خون کی تجارت میں خوشی محسوس کرتےہیں۔ جنگ کی تیاری کےلیےاسلحےکی ضرورت ہوتی ہےاوراسلحہ کے کارخانےبنکوں سےقرضےلےکرشروع کیےجاتےہیں۔ ان کارخانوں کوچلانےکےلیےماہرین فن کی ضرورت ہوتی ہے۔ تجربہ گاہوں اوریونیورسٹیوں میں تحقیقات کابیشترحصہ یہودیوں کےہاتھ میں ہے۔ یوں انہیں ذریعہ معاش دستیاب ہوتاہے۔ اب جس قدرڈالر اس اگ کوبجھانےمیں صرف ہونگےوہ بنکاروں کی عیدکاسامان مہیاکریں گے۔ جنگ کےدوران ہی انہیں یہ خیال ہوتاہےکہ بربادی زیادہ سےزیادہ ہوتاکہ جنگ کےبعدفریقین کوزیادہ سےزیادہ قرضےلینےپڑیں۔
عالمی یہودی بنکاروں نےدنیاکےمختلف حصوں پرجومظالم ڈھائےاسکاتصوربھی نہیں کیاجاسکتا۔ جنگ کےاوزاروں اورہتھیاروں کےکارخانہ داروں کےمال کی کھپت کےانتظام کی خاطرانہیں دنیاکےمختلف حصوں میں چھوٹےموٹےاختلافات پیداکرنےہوتےہیں۔ جرمنی عالمی جنگ سےبچناچاہتاتھالیکن یہودکی زیرزمیں کاروائیوں کی وجہ سےاسےجنگ قبول کرنی پڑی۔
عالمی جنگوں میں یہودی بینک جرمنی اوربرطانیہ کویکساں طورپرقرضےدےرہےتھے۔ یہودی دانشوروں نےشروع سےفیصلہ کررکھاتھاکہ شکست جرمنی کوہونی چاہیے اسلیے اسےتنہاکردیاگیا۔ اسکا جرم یہ تھاکہ اس نےبینکوں سےقرض لیناکم کردیاتھا۔ عالمی جنگوں میں اتحادیوں کےساتھ تعاون کے نتیجےمیں وہ انکی مددسےایک بارپھرارض مقدس پرقابض ہوچکےہیں۔
ذرائع ابلاغ کاہتھیار: یہودی سمجھتےہیں کہ جب ہرشخص عیش و عشرت کی تلاش میں رہےگاتوان کا کاروبارمزیدچمکےگااورانکےخلاف اوازاٹھانےوالاکوئی نہ ہوگا۔ لہٰذا انہوں نےلادینی طرززندگی کوبڑھاچڑھاکرپیش کیاتاکہ اخلاق وکردارکی بیخ کنی کی جاسکے۔یہودیوں نےمختلف النوع ذرائع ابلاغ کےذریعے انگریزکوبرہنہ کرکےخواہش نفس کاغلام بنادیااوراج وہ یہودی کےہاتھ میں بےبس کھلوناہے۔ اب ذرائع ابلاغ کی جدت کےباعث انکی کوششیں بہت بڑھ چکیں ہیں اوروہ مسلمانوں کو شکارکررہے ہیں۔
موجودہ طریق کارایساہےکہ ذرائع ابلاغ کےہروقت استعمال کےذریعےسیاہ کوسفیدکرلیاجاتاہے۔ ذرائع ابلاغ تک رسائی دولت کےبغیرممکن نہیں اوردولت بنکاروں کےپاس ہےلہٰذاوہی افرادجمہورکی نمایندگی کرسکتےہیں جن کےپاس بھاری بینک اکاؤنٹس ہوں۔
یہودکی بالادستی: راتھس چلڈخانوادہ یہودی بین الاقوامی بینکوں کاشروع سےسربراہ رہاہے۔ ترقی یافتہ ممالک کےمرکزی بینک بین الاقوامی یہودی بینکوں کےسرمائے پروجودمیں آئے۔ امریکہ، فرانس، جرمنی اوربرطانیہ صیہونیت کےزرخریدغلام بن چکےہیں۔ یہ ممالک اس قدر مقروض ہیں کہ شایدصدیوں تک یہ قرضےبےباق نہ ہوسکیں گے۔
امریکہ کاہرصدربھی یہودی مرضی کےمطابق چناجاتاہے۔ صدربن کرصیہونی اشاروں پرنہ چلےتو اسےقتل کردیاجاتاہے۔ امریکہ اوربرطانیہ محسوس کررہےہیں کہ وہ یہودیوں کی غلامی سےنجات حاصل نہیں کرسکیں گے۔
حرف آخر: یہودی مسلمانوں سےشدیدنفرت کرتےہیں اورانکےوجودتک کوختم کرناچاہتےہیں کیونکہ وہ جانتےہیں کہ صرف اسی دین کےعلمبردارہی انکے ناپاک مقاصدکوخاک میں ملاسکتےہیں۔
ماخوذاز تسخیرعالم کایہودی منصوبہ(بریگیڈیر گلزاراحمد)