ظلم کی رات ڈھلنے کو ہے!

حق اور سچ کا ساتھ دینا ہر مذہب کے ماننے والوں پر لازم ہے، کیونکہ سب اپنی اپنی جگہ اگر حق اور سچ کی حمایت نہیں کرتے تو اپنے رب کے سامنے سرخ رو نہیں ہوسکتے۔ دنیا میں بہت سارے معاشی اور سیاسی مسائل بیک وقت سر اٹھائے رہتے ہیں جن کا سامنا تقریباً ممالک کو رہتا ہے۔ لیکن آج اکیسویں صدی میں جب میدان جنگ کوئی خاص میدان نہیں ہے بلکہ عام عوام کے گھر وں تک جنگ پہنچ رہی ہے نا ہی کوئی اصول باقی بچا ہے کہ بچوں، عورتوں اور بزرگوں کو کچھ نہیں کہا جائے گا آج سب سے زیادہ متاثر ہوتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ عالمی عدالتیں ہوں یا عالمی طاقتیں منافقت کی اعلی مثالیں قائم کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتیں۔ دورِ حاضر میں اپنے ہی پرانے ریکارڈ توڑ رہی ہیں جن کے لئے انہیں ساری دنیا کے سامنے مگر مچھ کے آنسو بھی بہانے پڑ رہے ہیں۔ دنیا اپنی انتہائی بے حسی کا مظاہرہ کرتی چلی جا رہی ہے، یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بے حسی کی اب حد ہوچکی ہے۔ کسی بھی عمل کی حد ہونے کے بعد ہی اس پر ایسا رد عمل سامنے آتا ہے جیساکہ چھ اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر بھرپور حملہ کر کے دیا۔ سماجی ابلاغ اور دیگر ابلاغ کے ذراءع اس بات کے گواہ ہیں کہ اسرائیلی فوج کی عمومی کاروایاں انسانی حقوق کو کس طرح سے پامال کرتی رہی ہیں۔ دنیا کی بے حسی ایک طرف، اصل بے حسی مسلم ممالک کی ہے جو اپنے انبیاء کی مقدس سرزمین کی بقاء کیلئے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں، یہاں تک کے کوئی بیان دینے کیلئے بھی سامنے نہیں آتا۔ حالات واقعات تو ایسے دیکھائے جارہے تھے کہ عرب ممالک بہت جلد اسرائیل کو تسلیم کرلینگے، جس کے لئے امریکہ کا دباءو بھی ڈالا جارہا تھا اور دوسری طرف بھارت کے اسرائیل سے تعلقات پاکستان کو مزید نقصان پہنچا کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جانا تھاجو کہ ممکن نہیں ہوسکا۔

تقریباً بارہ ہزار بچے اسرائیلی فوجیوں نے ان کے والدین یا رشتے داروں کے سامنے اغواء کئے ہیں، ظالموں نے بچوں کے زخموں کی پروا نہیں کی اور انہیں باقاعدہ انکی ماءوں کے سامنے گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔ یہ باتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ دکھ اس بات کا بھی کم نہیں ہوتا کہ دنیا آج تک دہشت گرد اور اپنے حق کے لئے لڑنے والوں میں فرق نہیں کر پارہی، الزام یہ لگادیا جاتا ہے کہ کہ مسلمان دہشت گرد ہیں جبکہ کشمیر اور فلسطین میں ہونے والا ظلم و بربریت کسی کو نہیں دیکھائی دیتی ، شام میں مرنے والے معصوم بچے کسی آنکھ میں آنسو کا سبب نہیں بنتے۔ ہم روز سماجی ابلاغ اور دیگر ابلاغی ذراع سے خون میں لتھڑے ہوئے معصوم بچوں کو انکی مائیں اٹھائیں بھاگی چلی جا رہی ہیں، وہ کسی سے مدد نہیں مانگ رہیں اور اللہ کی مدد کی منتظر ہیں، کچھ عرصہ قبل ایک ایسی تصویر بھی ہماری آنکھوں نے دیکھی کے جس میں ایک معصوم کی لاش اسکے باپ کے کفن میں ساتھ ہی رکھ کر دفن کر دی گئی۔ اب کس کس بات کا تذکرہ کیا جائے اور کس طرح سے اپنے حکمرانوں کو حق اور سچ کا ساتھ دینے کی تلقین کی جائے۔ یہاں یہ امر بھی واضح ہے کہ آپ کو کسی وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ آپ کیوں فلسطین کا ساتھ دینے جا رہے ہیں، آپ جائیں اور فلسطین کو بچا لیں۔ بہت ممکن ہے کہ ایسا ہو بھی چکا ہو اور پاک فوج فلطینیوں کی درپردہ رہنمائی کیلئے وہاں پہنچ چکے ہوں۔ حماس اس یہ بات بھی خوب سمجھتے ہیں کہ قدرت بہادروں کا ساتھ دیتی ہے اور انہوں نے بہادری دیکھادی ہے اور قدرت نے خوب انکا ساتھ دیا ہے۔

دفاعی حکمت عملی اپنے بیانات میں تو واضح کی جائے، دشمن نے ہماری خاموشی کو ہماری کمزوری سمجھ لیا گیا ہے۔ دشمن نے ہمیں اپنے اپنے خطے میں الجھا کر رکھ دیا ہے خصوصی طور پر پاکستان کیلئے ایسے جال بچھائے ہوئے ہیں کے ایک سے اگر نکل جاتا ہے تو پاءوں دوسرے جال میں پھنس جاتا ہے۔ دشمن اس امر سے باخوبی واقف ہے کہ اگر پاکستان ذرا سابھی مستحکم ہوگیا تو اسے روکنا یا سنبھالنا ناممکن ہوجائے گا۔ ایک طرف افغانستان کی سرحدوں ساتھ مسلسل کشیدگی کا سامنا ہے، ایک طرف کشمیر کا مسلۃ ہے، ایک طرف وقتاً فوقتاً داخلی دہشت گردی اور ان سب کی پشت پناہی کرنے والا ہمارا پڑوسی ملک بھارت ہے۔ کچھ اسطرح سے ہمارے جسموں کوبھی زخم رسیدہ کر کے ہم پر خاموشی کی مہر لگائی گئی ہے۔ آج اسرائیل دنیا کے ماتھے پر ایک بدنما داغ بن کر نمایاں ہوچکا ہے اور اس کے عزائم کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ ابھی یہ منافرت صرف مسلمانوں کو کیساتھ دکھا رہیں، اگر انہیں ابھی نکیل نہیں ڈالی جائے گی تو کل یہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کیساتھ بھی اس سے کچھ مختلف رویہ اختیار کرنے سے گریز نہیں کرینگے۔ عقل کی پرستش کرنے والے اس سمجھ سے گریزاں ہیں کہ یہ فلسطینی بھاگنے پر مرنے کو ترجیح کیوں دے رہیں، کیوں اپنی زندگیوں پر اپنے انبیاء کی زمین پر مرنا قبول کر رہے ہیں۔ یہ لوگ اتنے بے خوف ہیں کہ راتیں کھلے آسمان کے نیچے گزار رہے ہیں۔ حماس وہ تنظیم ہے کہ جس کے رہنماؤں نے ہمیشہ قربانی دی ہے تو ان کا ہر ہر رکن شہادت کے جذبے سے سرشار ہے اور آج وہ اپنے دشمن کو للکار رہا ہے۔ اسرائیلی فوجی کس بے دردی سے مسلمان بچوں پر شب خون مار رہے ہیں، انسانیت کے علم بردار وں کی آنکھوں پر کون سی پٹی بندھی ہوئی ہے کہ انہیں کچھ دیکھائی نہیں دیتا اور وہ خاموش تماشائی بنے ان معصوموں کی لاشیں دیکھ رہے ہیں۔ کتنی ہی ایس تصویریں اور ویڈیوز مسلسل ہماری آنکھوں کے سامنے گھوم رہی ہیں کہ جن میں معصوم بچوں کے خون آلود چہرے بغیر کسی درد کی کراہٹ کے ایک طرف ڈھلکے ہوئے اپنے باپ اور ماں سے بے خبر فقط اپنی دھرتی ماں پر قربان پڑے ہیں۔ دل سوائے آہ کرنے اور آنکھ فقط ایک لمحے کو نم ہونے کے باقی سارا جسم کچھ بھی نہیں کر نے سے قاصر ہے۔ شام کے ساحل پر پڑی بچے کی لاش تھی یا پھر ملبے میں اٹا ہوا بچہ تھا یا پھر کفن میں اپنے باپ کے پہلو میں ابدی نیند سویا ہوا بچہ تھا مجھے بے ساختہ محمد بن قاسم کی یاد آجاتی ہے جس نے ایک بچی کی فریاد پر کس طرح سے اینٹ سے اینٹ بجائی تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کی کہی ہوئی وہ بات چیخ چیخ کر کانوں میں گونجتی سنائی دیتی ہے کہ کسی قوم کے نوجوانوں کو بے حیائی کی لت پڑ جائے تو وہ برباد ہوجاتی ہے۔ دشمن کو اس بات کا یقین ہوچکا تھا کہ وہ مسلمانوں کو میدان جنگ میں شکست نہیں دے سکتے جس کا انہوں نے ایک ایسا حل نکالا کہ ہم شکست خوردہ ہوکر رہ گئے پھر انہوں نے ہمیشہ ہ میں اخلاقی محاذ پر پسپہ کیا پھر ہمارے حکمرانوں سے جیسا چاہا ویسا کام لے لیا ہے۔

ترکیہ نے غذائی اجناس اور ادویات کی صورت میں امداد فلسطین بھیجی ہے ابھی یہ اطلاعات نہیں کہ پہنچ چکی ہے یا نہیں، ایران نے فلسطین کیلئے سرکاری سطح پر بھرپور آواز اٹھائی ہے اور وہاں عوام میں سے جہاد کیلئے رضاکاروں نے بھی اپنے نام لکھوانا شروع کردئیے ہیں، تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے گزشتہ روز امریکی صحافی کو اپنی بھرپور مذمت سے آگاہ کر دیا ہے، قطر نے یورپ کو گیس کی فراہمی منقطع کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے ابھی تک کوئی خاطر خواہ لاءحہ عمل واضح طور پر نہیں آیا ہے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ یوں تو ساری دنیا میں اسرائیل کے خلاف بھرپور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

فلسطین اور خصوصی طورپر غزہ کے رہنے والے رات کے اس پہر میں داخل ہو چکے ہیں جہاں سے نئی صبح کا سورج طلوع ہوا چاہتا ہے۔ فلسطین کے بعد کیا اب کشمیر میں بھی کوئی ایسی ہی بھرپور مذاحمت سر اٹھائے گی۔ وقت بدلنے کی آہٹ نہیں گڑگڑاہٹ سنائی دے رہی ہے، سارے ظالم کیفر کردار کو پہنچائے جائینگے اور حق کا بول بالا ہوگا، ظلم کی رات ڈھلنے کو ہے۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔