سوشل میڈیا کے اس دور میں میدان جنگ گویا ہماری آنکھوں کے عین سامنے سجاہے، محاذ جنگ سے سوشل میڈیا کے مجاہدین جو مناظر دکھا رہے ہیں وہ کسی بھی درد مند انسان کا دل دہلا دینے کے لئے کافی ہیں دوسری جانب غیرت ایمانی کا عالم یہ ہے کمنٹ، لائک، شیئر کے ذریعے رمق بھر ایمان کو تسلی دی جا رہی ہے، اذیت دہ بات یہ ہے کہ دجل کی جنگ میں ہم دشمن کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن چکے ہیں وہ اپنی مرضی کے کھیل بناتا ہے اور ہم اسکرپٹ کے عین مطابق کردار ادا کرتے ہیں وہ ہر شعبہ زندگی میں خواہ ایوانوں کا معاملہ یا معیشت کا… اپنے من پسند افراد کے لئے فضاء سازگار کر کے اپنا مطلب نکالتا ہے اور جب معاملہ آتا ہے ایک امت کی حیثیت سے، ملت کے کسی عضو کی داد رسی کا تو ہم ہونق بن جاتے ہیں… ہم سمجھتے ہی نہیں کہ دشمن کے بچھائے اس دجل کے کھیل میں اس صورتحال کا حل سوائے اس کے کیا ہو سکتا ہے کہ دشمن آپ کا دانہ پانی بند کر دے اور آپ پھر بھی امت کے لئے ایک ہو جائیں۔
المیہ یہ ہے کہ ہر ایسی صورتحال میں ہم اکٹھ کی محفلیں بدل دیتے ہیں. سیاسی اور ملکی اور قومی محاذ کی جنگ، قوم کے لیڈر چننے کی بار… جنہیں ہم بدھو سمجھتے تھے… اب انہی کی امامت میں ہم ملت کی سرخ روئی کے طلبگار ہوتے ہیں، بیسیوں اسلامی ممالک کے سیاسی و فکری مسائل میں تو یہی بدھو لوگ معتبر نظر آتے ہیں مگر ایک قوم کے معاملے میں ان کی قیادت پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جاتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے عماموں کے زور پر مسئلے کا حل نکل لیں. حیرت یے کہ جو لوگ ملت کی سر بلندی و وقار کے لئے قابل اعتبار و قابل بھروسہ ہیں وہ قوم کی قیادت کے امیدوار کے طور پر کیوں رد کر دیے جاتے ہیں۔
بات صرف اتنی ہے کہ ابرہوں کی صفوں میں کھڑے مسلمان حکمران اس پوزیشن میں ہوتے ہی نہیں کہ مقامات مقدس یا کسی بھی اسلامی شعار کا دفاع کر سکیں دوسری طرف ان حکمرانوں کو اس درجہ تک پہنچانے والوں نے اپنے رمق بھر ایمان یا ضمیر کی خلش کو مٹانا بھی ہوتا ہے چنانچہ وہ ابابیلوں کے منتظر رہتے ہیں اس حقیقت سے آنکھیں بند کیے ہوئے کہ ابابیلوں کے ذریعے اس وقت خانہ کعبہ کا دفاع کیا گیا تھا جب شرک کا دور دورہ تھا اور صحیح معنوں میں اللہ کا وفادار روئے زمین پر نہ رہا تھا جو بیت اللہ پر انچ نہ آنے دیتا، کیا ابابیلوں کے منتظر اس بات سے بے خبر ہیں کہ کنکریوں کے مستحق ابرہہ کے ساتھ اس کے حواری بھی ہوا کرتے ہیں لہٰذا اپنا قبلہ امریکا اور یورپ کو سمجھنے والے پہلے بیت المقدس کے محافظوں اور وقت کے نور الدین زنگی و صلاح الدین ایوبی کے لشکر کو تقویت پہنچانے والے حکمرانوں کو آگے لائیں، یہی وہ طریقہ ہے جو بیت المقدس کو بچا سکتا ہے۔ آئیے لکھ کر، بول کر اور اپنی ہر وہ صلاحیت استعمال کر کے اور ہر وہ ذریعہ استعمال کریں جس کی بدولت ہم بیت المقدس کو بچا سکیں۔