زندگی گزارنے کی بنیادی ضروریات میں نقل و حمل کو خاص توجہ حاصل رہی ہے۔ جدید دور میں ٹیکنالوجی میں ترقی کی بدولت آمدورفت کے ذرائع میں جدت پسندی واقع ہوئی ہے۔ یہی وجہ تھی جہاں قدیم ادوار میں چند گھنٹوں کا سفر دو سے تین دن میں طے پاتا تھا۔اب یہی سفر چند گھنٹوں کی مسافت سے طے ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں وقت کے ساتھ گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے آج ہر تیسرے فرد کے پاس اپنی ذاتی گاڑی یا موٹرسائیکل موجود ہے۔پاکستان میںموٹر گاڑیوں کی تعداد 75لاکھ سے ایک کروڑتک پہنچ گئی ہے۔ پورے ملک میں بڑھتی ہوئی گاڑیوں کی وجہ ،متعارف کروائی جانے والی وہ مختلف اسکیمیں اور پیکجز ہیں جن کے ذریعے آسان اقساط پر گاڑی و موٹرسائیکل بہ آسانی مل جاتی ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان میں بڑھتی ہوئی گاڑیاں سڑکوں پر ٹریفک حادثات کی شرح میں اضافہ کا سبب ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں سالانہ 35 سے 40 ہزار افراد ٹریفک حادثات کی نذر ہوجاتے ہیں،جب کہ 50 ہزار سے زائد افراد زخمی اور عمر بھر کی معذوری سے دوچار ہو جاتے ہیںان ہمیشہ کے لیے معذور ہو جانے والے لاکھوں افراد اور ملک کو سالانہ اربوں روپے کا معاشی نقصان اس کے علاوہ ہے۔سب سے زیاد ہ ٹریفک حادثات خیبر پختون خواہ اس کے بعد پنجاب اسلام آباد اور پھر سندھ میں رپورٹ ہوتے ہیں، مگر اندرون سندھ میں حادثات کی بڑی وجہ سڑکوں کی خستہ حالت ہے۔ پنجاب کی سڑکوں پر روزانہ اوسطاً 750 ٹریفک حادثات ہوتے ہیں، جن میں ہر روز اوسطاً 9 لوگ جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ منٹ کے بعد ٹریفک حادثہ پیش آتا ہے جس میں کوئی نہ کوئی شخص زخمی یا جاں بحق ہو جاتا ہے۔نیشنل روڈ سیفٹی کے مطابق اگر حادثات کو روکنے کی کوئی حکمت عملی پیش نہ کی گئی تو ملک میں ان حادثات کی تعداد 2030 ء میں 200 فی صد تک بڑھنے کا خدشہ ہے۔
ٹریفک حادثات صرف انسانی جان ہی نہیں لیتے، بلکہ یہ ملکی معیشت پر بھی ایک بوجھ بنتے ہیں، پاکستان میں ہر سال 9 ارب ڈالر سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجہ سے زخمی ہونے والے افراد کی طبی امداد اور تباہ حال گاڑیوں کی مرمت میں خرچ ہو جاتے ہیں۔آئے روز موٹر وے اور جی ٹی روڈ پر بسوں کا ٹکرائو ، آئل ٹینکر کا پھٹنا ، مسافر بسوں اور گاڑیوں کا تیز رفتاری کے باعث کھائیوں میں گر جانا یہ المناک صورتحال اہم و ٹھوس اقدامات کی متقاضی ہے ۔افسوس تو اس بات کا ہے جیسے ہی کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو قومی چینلز میں ریٹنگ کی دوڑشروع ہو جاتی ہے ،فوری طور پر وجہ حادثہ ، زخمیوں اور اموات کے ٹکر آن ایئر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ متعلقہ اداروں کے بیانات آنے سے پہلے تجزیے شروع ہو جاتے ہیں اور ان پر پریشر بلڈ اپ ہو جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف ریکوری پراسیس متاثر ہوتا ہے بلکہ حکمت عملی بعد از حادثہ بھی ناکام ہو جاتی ہے . حادثات کی شرح میں کمی کے لیے ضروری ہے کہ حادثات کی وجوہات پر پہنچنے کے بعد ان میں کمی کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں اور پالیسی ترتیب دی جائے۔
موٹروے پر آپ اسلام آباد سے لاہور کی جانب کلرکہار انٹر چینج جسے سالٹ رینج کہتے ہیں۔ یہ 10کلو مٹر پر محیط ہے اور 7 فیصد ڈھلوان پر مشتمل ہے۔ بد قسمتی سے اس حصے پر بہت سی سیکڑوں جانیں بھی جا چکی ہیں۔ اسکول بچوں کی بس کو پیش آنے والے حادثہ سب سے تکلیف دہ تھا جس میں 40 بچے زندگی ہار گئے تھے۔موٹروے پولیس کے مطابق 1997 ء میں افتتاح سے اب تک اس مخصوص حصے میں تقریباً 350 حادثات ہو چکے ہیں جن میں سینکڑوںکے قریب افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کی بڑی وجہ ایک تو مسلسل ڈھلوان کا ہونا ہے اور دوسرا خطرناک موڑ ہے۔ اگر آپ اس حصے پر ڈرائیونگ کرتے ہوئے ذرا سا بھی غیر محتاط ہوئے اور توجہ ادھر ادھر ہوئی تو آپ شدید خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔بد قسمتی سے ہمارے لوگ سائنسی قوانین کو مکمل نظر انداز کر کے زیادہ تر قسمت پر انحصار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ اچھے ڈرائیو ہیں اس لیے ڈھلوان اور موڑ دونوں خطروں کو با آسانی پار کر جائیں گے۔ مگر جب حالات سازگار نہ ہوں تو بڑی تباہی یقینی ہو جاتی ہے اور یہی امر جانی نقصان کی وجہ بنتا ہے۔
ایک واقعے میں راولپنڈی سے جھنگ جاتے ہوئے مسافر بس بریک فیل ہونے کی وجہ سے سالٹ رینج کلرکہار کے قریب حادثے کا شکار ہوئی اور 10 افراد موقع پر جان کی بازی ہار گئے تھے۔گذشتہ ماہ پنڈی بھٹیاں ایم فور کے قریب مسافر بس کو آگ لگ گئی، جس کے نتیجے میں 18 مسافر جاں بحق ہو گئے تھے۔ موٹروے پولیس کی تنخواہیں دوسرے اداروں سے کہیں کم ہیں۔دوسری جانب نیب، ایف آئی اے، عدلیہ جیسے ادارے موٹروے پولیس سے زیادہ تنخواہ لے رہے۔ PSP افسران بھی موٹروے پولیس میں نہیں آ رہے۔ کیونکہ ڈسٹرکٹ پولیس میں ان کو ایگزیکٹو الاؤنس ملتا جبکہ موٹروے میں آنے سے اس الاؤنس کے نہ ملنے سے ان کی تنخواہ کافی کم ہو جاتی۔ دوسری طرف ڈیوٹی دوسرے اداروں کی نسبت مشکل ہے جس میں لازمی رات کو پٹرولنگ شامل ہے۔ چنانچہ سفارشی افسران دوسرے محکموں میں پرکشش سیٹوں پر ڈیپوٹیشن پر چلے گئے جس سے فورس میں موجود کمی نفری کے مسائل اور بھی گمبھیر ہوئے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ میرٹ کو ترجیح دی جائے۔ ڈیوٹی فل افسران کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اور پوسٹنگ کےمعاملات میں مخصوص افراد کی اجارہ داری ختم کی جائے۔ اسکے ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی ہے کہ موٹروے پولیس صرف چالان کی تعداد پر ہی فوکس نہ کرے۔ گذشتہ سال کے چالان ٹکٹس کی تعداد سے موازنہ اور ہر آنے والے سال پہلے سے زیادہ چالان کی تعداد نے فیلڈ فورس پر زیادہ سے زیادہ چالان کیلئے پریشر بڑھایا ہے جس سے فورس کی کارکردگی بھی متاثر ہوئی ۔
موٹروے پولیس کو ٹریفک کے معاملات پر ہی فوکس کرنے کی ضرورت ہے۔ریسکیو 1122 کے مطابق پنجاب بھر میں ہونے والے ٹریفک حادثات میں 16 افراد جاں بحق جبکہ 2 ہزار 204 افراد زخمی ہوئے۔آخر ان جان لیوا ٹریفک حادثات کا ذمہ دار کون ہے؟کیا لاپرواہ ڈرائیور حضرات ہیں؟ یا پھروہ حکومتی ناقص پالیساںہیں جن میں عوام سے صرف ٹیکسز لیے جاتے ہیں ڈلیور کچھ نہیں کیا جاتا ۔ اس سوال کا جواب دینے کی بجائے ایک دوسرے کو کوسنا دانشمندی نہیں۔