عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ۔
حماس نے حالیہ حملوں سے اسرائیل کو حیرانگی کے ساتھ شرمندگی کا شکار بھی کردیا ہے۔ اپنے دفاعی نظام پر ناز کرنے والے اسرائیل کا نہ تو آئرن ڈوم کام آیا نہ ہی انٹیلی جنس سسٹم۔ حماس نے زمین اور فضا سے گھس کر مارا ہے۔ متعدد فوجی ہلاک ہوئے اور کئی ذلت آمیز انداز سے قیدی بنے۔ باقی ٹینکوں سمیت بھاری اسلحہ چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ گزشتہ برسوں میں یہ فلسطینیوں کی سب سے موثر عسکری کاروائی ہے۔ یہ کاروائی بڑی بڑی افواج رکھنے والی مسلم ریاستوں کے منہ پر بھی تماچہ ہے کہ غزہ کے بے سروسامان محصور فلسطینی اگر یہ کر سکتے ہیں تو اگر دو چار مسلم ممالک متحد ہو جائیں تو کیا نہیں ہوسکتا۔
فلسطینی گزشتہ پچھتر برسوں سے تاریخی مظالم کا شکار ہیں۔ پہلے ان کو اپنی ہی زمین پر اجنبی بنادیا۔ ان کے وطن پر ایک نیا ملک کھڑا کرکے عام فلسطینیوں کے گھروں پر قبضے کئے گئے، دنیا بھر سے یہودیوں کو جمع کرکے ان زمینوں پر آباد کیا گیا اور آخر فلسطینی صرف مغربی کنارے اور غزہ تک محدود و محصور ہوگئے۔ یہاں بھی ان کی زندگی اسرائیلی مظالم سے محفوظ نہیں۔ زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ۲۰۰۸ کے بعد سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج نے قتل یا زخمی کیا جس میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔جب یہ سب ہورہا تھا۔
عالمی ادارے اور نام نہاد دانشور تماشائی تھے یا پھر اسرائیل کے حامی۔ کسی نے فلسطینیوں کے حقوق کے لئے آواز نہیں اٹھائی۔ آج یہ سب فلسطینیوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ مزاحمت نہ کرو ورنہ اور مار کھائو گے۔ اوّل تو جس دنیا نے ان پچھتر برسوں میں فلسطینیوں کے لئے کچھ نہ کیا، فلسطینیوں کے مشورہ دینے سے قبل انہیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے۔ ان کی دلیل بھی بُودی ہے۔ خود ظالم غاصب کے خلاف آواز اٹھانے اور عمل کرنے کے بجائے مظلوم سے کہہ رہے ہیں اپنے حق کو بھول کر خاموشی سے ظلم برداشت کرو۔ حقائق بھی ان کی دلیل کے خلاف ہیں۔ پی ایل او نے عالمی دبائو پر تقریباً تیس سال قبل اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کرنے، مسلح مزاحمت ترک کرنے جیسی شرائط تسلیم کیں لیکن اسرائیل نے معاہدے کی کسی شرط پر عمل نہیں کیا۔ فلسطینی علاقوں پر قبضہ اور فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رہی۔ حالیہ برسوں میں مسجد اقصٰی کے تقدس کو بھی متعدد بار پامال کیا۔ لیکن عالمی اداروں نے اپنے کئے گئے وعدے اور فلسطینیوں کے حقوق کو اہمیت نہ دی۔ فلسطینی عوام کا ہمیشہ سے فیصلہ ہے کہ وہ بے بسی سے مظالم سہنے کے بجائے اپنے حق کے لئے مزاحمت جاری رکھیں گے۔
انتفاضہ ہو یا حالیہ آپریشن، فلسطینی عزیمت کے راستے پر ہیں۔ فلسطینی کسی سے بھی بہتر جانتے ہیں کہ اس راستے پر کیا پیش آئے گا کیونکہ وہ پچھتر سال سے سہہ رہے ہیں۔ سلام ہے اس قوم کو جو برسوں سے اپنے پیاروں کے لاشے اٹھا رہے ہیں لیکن ایمان سلامت ہے۔ تاریخ میں مزاحمت کی ایسی مثالیں کم ہی ہوں گی۔ جو عالمی قوتیں ان کے لئے کچھ نہیں کرتیں اور جو نام نہاد مصلحت پسند دانشور ان کے لئے آواز نہیں اٹھا سکتے، وہ مشورے دیکر ان کی جدوجہد کی توہین کرنے کا بھی حق نہیں رکھتے۔ ہمارے ہاں بھی کچھ ایسے دانشور ہیں جو اگر ۱۴۰۰ برس قبل ہوتے تو غزوہ بدر کو خود کشی قرار دیتے (کچھ تھے بھی اس وقت) اور اُحد کے بعد تو نعوذباللہ مصلحت کے نام پر سرداران مکّہ کی بیعت کا مشورہ دیتے۔شیخ یاسین شہید نے صحیح ہی کہا تھا کہ اسرائیل غزہ پر نہیں بلکہ سارے عرب (اور عالم اسلام) پر قابض ہے، سوائے غزہ کے۔
اقبال کے اشعار میں۔۔۔
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
اے مسلماں! ہر گھڑی پیشِ نظر
آیۂ ’لاَ یُخلِفُ الْمِیْعَاد‘ رکھ
یہ ’لِسان العصر‘ کا پیغام ہے
اِنَّ وعْد اللہِ حقٌ یاد رکھ۔