یہ 22 جولائی 2002 کی ایک شدید گرم رات تھی جب اسرائیل فضائیہ کو فراہم کردہ امریکی ایف 16 طیارے نے غزہ کے ایک گنجان آباد ترین علاقے میں ایک ٹن یعنی ایک ہزار کلوگرام وزنی بم کے کے ساتھ ایک مکان کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں پورا محلہ تباہ و برباد ہو گیا۔اسرائیلی حیوانی فوج کا یہ حملہ حماس کے ملٹری کمانڈر صلاح شحادۃ کی شہادت کے لیے کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں 50 سے زائد گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے اور کم از کم 15 افراد بشمول شیر خوار بچے، عورتیں اور بوڑھے افراد شہید اور 50 سے زائد افراد زندگی بھر کے لیے معذور ہو گئے۔
صلاح الشہادہ کی شہادت کے بعد جس شخص نے عزالدین القسام برگیڈ کی قیادت سنبھالی اسے آج دنیا محمد ضیف کے نام سے جانتی ہے لیکن صیہونی اسرائیلی اسے ایک گھوسٹ یعنی بھوت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔لیکن اسرائیلیوں کے لیے بھوت اور فلسطینیوں کے مہمان سے پہلے یہاں یحیی عیاش کا تذکرہ انتہائی اہم ہے جو کہ فلسطینیوں میں المہندس یعنی انجینیئر کے نام سے جانا جاتا تھا۔یحیی عبداللطیف عیاش مغربی کنارے میں عزالدین القسام برگیڈ کا رکن اور حماس کا چیف “بم میکر” تھا جس نے گھریلو استعمال کی اشیاء جن میں گھر میں استعمال ہونے والے کپڑے دھونے والے محلول یا ڈیٹرجنٹ سے ایک ایسا بم بنایا تھا جسے اس نے “ام شیطان” کا نام دیا تھا۔یحیی عیاش کا بنایا ہوا بارود اس قدر ظالم تھا کہ کبھی کبھی یہ بنانے والے کو ہی اڑا کر رکھ دیتا تھا، اکثر اس کو لے جانے والا فدائی راستے میں ہی اڑ جایا کرتا تھا لیکن اگر فدائی اس بارود کے ساتھ کسی اسرائیلی بس یا کسی گنجان آباد علاقے میں پہنچ جاتا تو درجنوں اسرائیلیوں کی ہلاکت اور سیکڑوں کی زخمی ہونے کی خبریں دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ نشر کیا کرتے تھے۔
المہندس یا فلسطینیوں کے انجینیئر یحیی عیاش کو اس زمانے کی ایک جدید ایجاد موبائل فون حاصل کرنے کا بہت شوق تھا اور جب فلسطینی غداروں نے یہ بات اسرائیلی ہوم لینڈ سیکیورٹی “شن بیت” کو بتائی تو انہوں نے موبائل فون میں بم بنا کر یحییٰ عیاش تک پہنچایا، جب فلسطینی مجاہد نے موبائل فون اپنے کان سے لگا کر کال سننے کی کوشش کی تو کالر نے اسے بتایا کہ یہ اس کہ کانوں میں پڑنے والی آخری آواز ہے اور اس کے بعد موبائل فون کے ایئر پیس میں لگا ہوا چھوٹا بم پھٹنے سے المہندس موقع پر ہی شہید ہو گیا۔لیکن یحییٰ عیاش المعروف المہندس کی کوششوں سے عزالدین القسام برگیڈ میں شمولیت اختیار کرنے والا نوجوان محمد دیاب ابراہیم المصری یہ جان چکا تھا کہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اس کے استاد کی جان لے چکا ہے اس لیے اس نے عہد کیا کہ وہ زندگی بھر موبائل فون، انٹرنیٹ اور کمیونیکیشن کے دیگر جدید ذرائع استعمال نہیں کرے گا لیکن وہ دستیاب جدید ٹیکنالوجی کو اپنے دشمنوں کے لیے اسی طرح استعمال کرے گا جیسے جدید ٹیکنالوجی کو فلسطینی مجاہدین اور عوام کی نسل کشی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔جب نوجوان محمد دیاب ابراہیم المصری نے عزالدین القسام برگیڈ کی قیادت سنبھالی تو کچھ ہی عرصے بعد حماس کے بانی رہنما شیخ احمد یاسین کو اپاچی ہیلی کاپٹر کے میزائل حملے میں شہید کر دیا گیا، اور اس کے چند ہی مہینوں بعد اسرائیل نے فلسطینیوں کے ایک اور عظیم رہنما شیخ عبدالعزیز الرنتیسی کو بھی اپاچی میزائل حملے میں شہید کر دیا۔
یاد رہے کہ یہ وہ ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی شہید ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ موت توبرحق ہے جو آکر رہنی ہے بستر پر آئے یا اسرائیلی اپاچی ہیلی کاپٹر کے میزائل حملے میں آئے مگر ان کی خواہش ہوگی کہ ان کی موت اسرائیلی اپاچی ہیلی کاپٹر کے میزائل حملے میں ہو۔اپنے عظیم رہنماؤں کی پے در پہ شہادتوں نے محمد دیاب ابراہیم المصری کو محمد “ضیف” بنا دیا تھا یعنی مہمان کیونکہ فلسطینیوں میں موجود غدار اس کی پل پل کی اطلاعات صیہونی قاتلوں کو فراہم کرتے تھے لیکن وہ ان حملوں سے بچنے کے لیے ہر رات کسی نئے گھر کا مہمان ہوتا اور بعض اوقات وہ ایک رات میں دو اور تین لوگوں کے گھروں میں بھی قیام کرتا۔مواصلات کے جدید ذرائع کے استعمال سے گریز، تصویر اور ویڈیو بنوانے سے اجتناب اور اپنی لوکیشن کو مسلسل تبدیل کرنا بہت اہم حکمت عملی تھی لیکن یہ اس پر اللہ کا کرم تھا کہ وہ اسرائیلیوں کے کم از کم سات جان لیوا حملوں میں محفوظ رہا اگرچہ ان حملوں کے نتیجے میں وہ اپنی ایک آنکھ، ایک بازو اور دونوں ٹانگوں سے معذور ہو چکا ہے۔اسرائیلی قاتلوں کی جانب سے 2014 میں کیے گئے ایک حملے میں محمد ضیف کی جواں سال بیوی ‘وداد الضیف اپنے سات مہینے کے شیر خوار بچے اور تین سالہ بیٹی سمیت شہید ہو گئی لیکن بقول اسرائیلیوں کے وہ ‘نو بلیوں کی زندگی لے کر پیدا ہوا ہے اس لیے اس نے ایک بار پھر موت کو مات دے دی اور اب تک اسرائیلیوں نے اسے مارنے کی ان گنت کوششیں کی ہیں لیکن “جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے” کے مصداق وہ اب تک ان کے سینوں پر مونگ دل رہا ہے۔
فلسطینی آبادیوں پر اسرائیلیوں کی وحشیانہ بمباری، بم دھماکوں اور میزائل حملوں میں اپنے ساتھیوں اور بے گناہ فلسطینی بچوں عورتوں اور بزرگوں کی شہادت، غزہ کے مسلسل محاصرے اور سب سے بڑھ کر مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی پر وہ اکثر اسرائیل کو “جہنم کے دہانے” کھول دینے کی دھمکیاں دیا کرتا تھا لیکن اس کے دشمنوں سمیت دنیا بھر کے لوگوں کو یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ 20 سال سے محصور قوم کا ایک معذور کمانڈر اپنے سے کئی ہزار گنا طاقتور دشمن کے لیے کیسے کوئی مشکل پیدا کر سکتا ہے؟لیکن سات اکتوبر 2023 کا دن اسرائیلیوں کے لیے یقینا جہنم کا ایک دروازہ کھلنے جیسا دن ہی تھا جب ان ان کی طاقتور ترین انٹیلیجنس ایجنسی موساد، ہوم لینڈ سکیورٹی شن بیت سمیت اتحادی یورپی اور عرب ممالک کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کو کانوں کان خبر ہوئے بغیر ان پر فضا زمین اور سمندر سے قیامت ٹوٹ پڑی، تادم تحریر 700 سے زائد اسرائیلی فوجی پولیس اور مسلح آباد کار مردار ہو چکے، ایک اسرائیلی جنرل سمیت سیکڑوں فوجی اور آباد کار یرغمال بنا لیے گئے اور 48 گھنٹے گزرنے کے باوجود اسرائیل کے اندر کئی علاقوں میں حماس کے مجاہدین اپنے سے کئی گنا بڑی اور طاقتور فوج کو ناکو چنے چبوا رہے ہیں۔