میرا حق دلائیے

زمانہ ابتدائے بعثت ہے۔ اہل مکہ کے مظالم بڑھ چکے ہیں۔ نبئ آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خانہ کعبہ کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔ اتنے میں ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے “اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !عمرو بن ہشام(ابو جہل) کے ذمے میری کچھ رقم ہے لیکن وہ انکاری ہے۔یا رسول اللہ! مجھے میرا حق دلائیے”ـ

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی وقت کھڑے ہو جاتے ہیں اس کے آگے آگے چل پڑتے ہیں ـ ابو جہل کے دروازے پہ دستک دیتے ہیں ـ اندر سے آواز آتی ہے کون؟ فرماتے ہیں ،محمد رسول اللہ ـ ! دروازہ کھلتا ہے ۔ابو جہل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ کے ہمراہ اس شخص کو دیکھتا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارعب آواز میں فرماتے ہیں۔۔ اس شخص کا حق ادا کرو۔ ابوجہل انہی قدموں پلٹتا ہے رقم لا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کر دیتا ہےـ

وقت منظر بدلتا ہے ۔مسجد نبوی کا صحن مبارک ہے ۔وہ ایک مظلوم عورت ہے روتی جاتی ہے اور کہتی جاتی ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا حق دلائیے۔ معاملہ شوہر کے غصے کا ہے،اور غصے میں نکلے الفاظ کا ہے، چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ۔ اس کا رونا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو کیا اللہ سے بھی نہیں دیکھا جاتا ۔عرش ہلتا ہے اور وحی کا نزول ہوتا ہے ۔سورہ مجادلہ کی آیات کی شکل میں وہ رونا، وہ جھگڑنا ، وہ حق کا مطالبہ کرنا۔ تاقیامت محفوظ کر دیا جاتا ہے اور فیصلہ عورت کے حق میں سنا دیا جاتا ہے۔

پھر منظر بدلتا ہے ۔اللہ کے رسول صحن نبوی میں تشریف فرما ہیں ۔وہ نوجوان آتا ہے اور گلہ کرتا ہے میرا باپ میرے مال کو بنا پوچھے استعمال کر لیتا ہے۔والد کو بلایا جاتا ہے وہ بوڑھا آدمی ہے لاٹھی ٹیکتا آتا ہے۔اس سے سوال کیا جاتا ہے تو کہتا ہے” اے حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں جوان تھا یہ بچہ تھا،میں مالدار تھا یہ مفلس تھا ۔میں جو کماتا تھا اس پر لٹاتا تھاـ وقت گزرا میں ناتواں ہو گیا اور یہ جوان ،میں مفلس ہو گیا اور یہ مالدار ، اب یہ کہتا ہے میرا مال ،میرا مال ۔” آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی بات سن کر آبدیدہ ہو گئے اور اس کا ہاتھ باپ کے ہاتھ میں دیتے ہوئے فرمایا ! تو اور تیرا مال دونوں اس کے ہیں ـ”

ایک اور منظر نگاہوں میں گھومتا ہے ۔ایک شخص بارگاہ رسالت میں آتا ہے اور کہتا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گواہ رہیے میں نے اپنی فلاں زمین کا ٹکڑا اپنے فلاں بیٹے کے نام کر دیا ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوال کرتے ہیں کیا تیرے اور بھی بیٹے ہیں؟ وہ جواب دیتا ہے ۔جی ہاں۔ آپ دوبارہ سوال کرتے ہیں کیا تم نے سب کے نام ایسی زمین کی ہے ۔وہ کہتا ہے۔ ۔نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:” میں ظلم کا گواہ نہیں بن سکتا۔”

یہ چند جھلکیاں تھیں ” *اسوہ حسنہ* “کی.

آج ہمارا معاشرہ جس بدامنی،ظلم اور نا انصافی کا شکار ہے اس کی بڑی وجہ حقوق پر دست درازی ہے اور کوئی مظلوم کا ساتھ دینے اور حق دلانے والا ہی نہیں۔

مظلوم بیچارا کہیں انصاف کے لیے آواز اٹھائے بھی تو یا اسے صبر کی تلقین کی جاتی ہے یا ڈرا دھمکا کے بٹھا دیا جاتا ہے ۔ظالم کے ہاتھ کھلے اور رسی دراز ہو گئی ہےـ ظلم سہنے والے کو مہان تو سجھا جاتا ہے اور کہیں اس کے کشکول میں چند سکے بھی ڈل جاتے ہیں لیکن حق کے مطالبے پر اس کی پشت پر کھڑا ہونے والا کوئی نہیں ہوتا۔

اسی ناانصافی اور حق کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے معاشرے میں مجموعی طور پر بزدلی اور بے حسی بڑھ گئی ہےـ

ظالم ہر جگہ کھلا پھرتا ہے نہ تو کوئی اس کا ہاتھ پکڑتا ہے اور نہ نصیحت کرتا ہےـ

کہیں بھائی ،بھائی کا حق کھا رہا ہے اور کہیں شوہر ،بیوی اور بیوی، شوہر کے حقوق پر دست دراز ہے،کہیں اولاد ،بوڑھے ماں باپ کے لیے آزار بنی ہے اور کہیں والدین ،اولاد میں ناانصافی اور ظلم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دوست ،دوست کا دشمن ہے،منافقت عام ہو چکی ہے۔

لوگ دہرے چہرے لیے گھومتے ہیں اور ان کے نقاب پلٹنے والا کوئی نہیں ـ

*عدالتیں* ۔۔۔ ۔منصفوں سے خالی ہیں اور *گھر* ۔۔۔ تقویٰ سے۔

کہیں احساس برتری ،غرور و تکبر کا شکار گھر گھر فرعون کھلے عام پھرتے ہیں اور کہیں احساس کمتری ،نفرت ،بغض،حسد ، غصے کے پکتے لاوے ۔۔۔۔ڈپریشن، اینزائٹی ، بلڈ پریشر ،امراض قلب، شوگر،جنون، اور ذہنی امراض کی صورت عام ہو چکے ہیں۔

تحمل،رواداری، برداشت، عزت و احترام ، درگذر اور ہمدردی جیسی صفات مٹتی چلی جارہی ہیں ان کی جگہ بے رخی،بے حسی،عدم برداشت، بدزبانی، غلط بیانی، بد لحاظی اور ناانصافی جیسے گھن معاشرے کو کھوکھلا کرتے چلے جا رہے ہیں۔

سیانے کہتے ہیں ہاتھ ہی ہاتھ کو دھوتا ہے۔

گویا معاشرے کو سدھارنے کے لیے دو طرفہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ یک طرفہ تو محبت بھی کسی کام کی نہیں۔محبت کے لیے بھی جوابی رسپانس ضروری ہےـ

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کو سدھارنے کےلئے ایسے ادارے اور کمیونٹی سینٹرز قائم کیے جائیں جو لوگوں کی دسترس میں ہوں ،ان کے مسائل سن کر حل دیے جائیں، لوگ بلاجھجک اپنے غم اور مسائل شئیر کر سکیں۔ ان کو چلانے والے افراد دینی اور دنیوی طور پر معاشرے میں بہتر مقام رکھتے ہوں ،انہیں سوشل اور سائیکولیجکلی مسائل کا مکمل فہم ہو اور وہ مخلصانہ بے لوث خدمت پر یقین رکھتے ہوں۔

وہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں لوگوں کی تربیت کا ہنر جانتے ہوں۔

اسی طرح معاشرے کے مؤثر طبقے خصوصاً اساتذہ کو فیملی کونسلنگ کی خصوصی تربیت دی جائے تاکہ وہ والدین اور بچوں کی ذہن سازی کر سکیں۔

سکول ،کالجز اور یونیورسٹیز میں ماہانہ بنیادوں پر ورکشاپس اور سیمینارز رکھوائے جائیں جو نئی نسل کو حقوق وفرائض کی عملی تربیت دے سکیں۔

تقویٰ اور رضائے الٰہی کا سبق پڑھایا نہیں سکھایا جائے۔

اگر ایسے افراد اور ادارے بروقت نہ تیار کیے گئے،ایسے کچھ مزید بہتر اقدامات نہ کیے گئے تو عنقریب لوگ اپنے غموں اور اپنے ساتھ ہوئی ناانصافیوں کا بوجھ لیے پھٹ پڑیں گے اور پھر اس لاوے کو روکنے کی مجال کسی میں نہ ہوگی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو نبئ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر چلنے والا بنائے ۔اللہ کی ذات ہمارے لیے کفایت کر جائے۔اللہ ہمارا

اسوہ حسنہ پر چلنا آسان بنا دے۔آمین