أج اس فتنے کے دور میں ہم جن جن مشکلات کا شکار ہیں ان میں سر فہرست اولاد کی اچھی تربیت کرنا ہے۔ الحمدللہ ہمارے گھروں کا ماحول اچھا ہو مذہبی ہو نماز روزے ادا کرتے ہوں اور اپنی جانب اپنے بچوں کو بھی نماز، قرآن سے آشنا کرایا ہو مگر جب وہی بچے گھر سے باہر کے ماحول میں نکلتے ہیں مقصد حصول تعلیم ہو یا حصول روزگار، گھر سے باہر تو جانا ہی ہے نہ تو باہر کے ماحول اور گھر کے ماحول میں انہیں اک واضح فرق دیکھنے کو ملے گا اور اس فرق میں اچھے برے کی شناخت کر کے انہیں اپنے مستقبل کی منزلیں طے کرنا ہوں گی۔
یہ تو باہر نکلنے والے بچوں کی مشکلات ہیں مگر آج میں اس عمر کے بچے بچیوں کی بات کروں گی جو ابھی گھر میں زیادہ وقت گزارتے ہیں ٹیوشن، مدرسہ پڑھنے کے بعد وہ اپنی ماں کے ساتھ گھر میں ہی ہوتے ہیں۔
ان بچوں کے لئے ہم نے اپنے گھروں میں ایسے ایٹم بم ان کے ہاتھوں میں تھما دیئے ہیں جو آج نہیں تو کل ان کے ذہنوں میں پھٹ کر ان کی شخصیت کو مسمار کر سکتے ہیں۔
جی ہاں میں بات کر رہی ہوں موبائل فون، ٹی وی گیمز اور نہ جانے کیا الا بلا جن کے میں نام بھی پوری طرح نہیں جانتی۔
موبائل بچے کے ہاتھ میں دے کر تو سمجھیں ہم اس سے پوری طرح لا تعلق ہو جاتے ہیں اب وہ جو چاہے اس میں دیکھے کھیلے ؛ دیکھے کبھی تو بنا چاہے بھی ایسی چیزیں سامنے أجاتی ہیں جو بڑا بھی دیکھے تو شرم سے زمین میں گڑ جائے۔
ٹی وی دیکھنے میں اک لحاظ سے نقصان کا اندیشہ کم ہے کہ لاؤنج میں رکھے ٹی وی پر کم از کم ہمیں بھی پتا ہے کہ بچہ کیا دیکھ رہا ہے۔
یہ تو بات ہوئی بچے کی مگر ان ماؤں کو کیا کہیں جو خود ٹی وی پر ایسے ایسے ڈرامے دیکھ رہی ہیں جو اخلاقی طور پر انتہائی پستی کا شکار ہو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر ابھی حال ہی میں اے آر وائی سے نشر ہونے والا ڈرامہ ” مائی ری ” یہ ڈرامہ نام کے لحاظ سے ایسا لگتا تھا کہ شائد ایک ماں؛بیٹی کی کہانی ہوگی مگر اس میں دکھایا یہ گیا کہ کم عمری میں ایک لڑکے لڑکی کی شادی کر دی جاتی ہے اور اس مدعے کو ان پر ظلم کی صورت دکھایا گیا ہے۔ اسلام نے تو لڑکی لڑکے کے بالغ ہوتے ہی ان کا نکاح کر دینے کا حکم دیا ہے تو پھر یہ ظلم تو کسی صورت نہیں مانا جا سکتا۔
پھر دوسری بات لڑکی آگے پڑھنا چاہتی ہے اپنا مستقبل بنانا چاہتی ہے اور شادی سے خوش بھی نہیں ہے مگر پھر بھی شادی کے کچھ عرصے بعد ہی ایک بچی کی ماں بن جاتی ہے اتنی جلدی تو راضی خوشی کی شادی میں بھی بچے نہیں ہو جاتے جتنی جلدی یہاں زبردستی کی شادی میں ہو گیا۔ اس کا مطلب شادی کے قابل تو دونوں ہی تھے نہ پھر ایسا کون سا ستم توڑ دیا گیا ان پر؟
اب آتے ہیں اس ڈرامے کے انجام کی طرف جہاں زبردستی شادی کے بندھن میں بندھ جانے والے لڑکا لڑکی اچانک اتنے خود مختار ہو گۓ کہ اپنی طلاق کا فیصلہ کر کے اپنی ماں کو سنانے پہنچ گئے اور یہاں بھی لڑکی نے لڑکے کو سمجھا کر لڑکے کو طلاق کے لئے راضی کیا کہ تم باہر ملک پڑھنے جا رہے ہو تو مجھے آزاد کر کے ہی جاؤ اور تم وہاں سے کبھی واپس نہیں آؤ گے ارے اللہ کی بندی اگر وہ وہاں مستقل سیٹ بھی ہو جاتا ہے تو کیا کالے پانی کی سزا ہو گئی ہے جو تجھے اور بچی کو وہاں نہیں بلا سکتا۔
اس مسئلہ کا حل کیا صرف اور صرف طلاق ہی تھا اور پھر وہی ماں جو کسی بھی طرح اپنے بچوں کو سہولت دینے کو تیار نہیں تھیں ان کے طلاق کے فیصلے میں ہنسی خوشی ان کے فیصلے پر راضی ہوکر میرا جسم میری مرضی والی آنٹی کی تقلید کرنے لگیں۔
لکھنے کا مقصد یہی تھا کہ یہ تو باز آنے والے ہیں نہیں ایسے بے مقصد ذرامے تو بنتے ہی رہیں گے ہمیں اپنے بچوں کو ان فضولیات سے بچانے کے لۓ عملی اقدام کرنا ہوگا اور ان فضول اور لغو چیزوں سے اپنے گھر میں بائیکاٹ کرنا ہوگا جو ہمارے پچوں کے ذہنوں پر بد اثرات چھوڑیں اور انہیں شتر بے مہار بنا دیں آج کے بچے کل کے معمار ہیں ان کی تربیت ہم نے کرنی ہے ان میڈیا والوں نے نہیں، سوچیۓ گا ضرور۔