کبھی کبھی یہ سوچ حیران کرتی ہے کہ اللہ کی شان نرالی ہے۔ سال کے بارہ مہینے بنائے اور ہر مہینے کے ساتھ کوئی نہ کوئی خاص یاد جوڑ دی ۔ایسا ہی مہینہ ۔۔۔ربیع الاول ہے۔ ولادت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مہینہ۔ ربیع کا مطلب بہار ہے اور یہ مہینہ مومنوں کے دلوں پر بہار کی مانند ہی اترتا ہے۔
ہر کلمہ گو کا دل اپنے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے سرشار ہوتا ہے۔ہر ایک اس ماہ میں اس محبت کو تازہ ہوتے محسوس کرتاہے۔۔۔۔۔۔جس کا اظہار کبھی ہم آپ کی شان میں قصیدے لکھ کر ،کںھی نعتیں پڑھ کر،کبھی محفلیں سجا کر اور کبھی درود وسلام کے نذرانے بھیج کر کرتے ہیں۔
ہر ایک اپنے انداز سے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے۔
ہمارے نبی کی ہمہ پہلو شخصیت یقیناً رہتی دنیا کے لیے نمونہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو عرب وعجم گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا تھا۔آپ کی ذات روشنی بن کر آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کا خاص پہلو یہ ہے کہ آپ لوگوں کی اصلاح اور نظام کی اصلاح کے لیے تشریف لائے۔۔۔۔۔۔لیکن افسوس آج ہم نے پچھلی قوموں کی طرح صرف عقیدت ان کے لیے رکھ چھوڑی ہے۔
دنیا میں آپ کے نام لیوا تو اس وقت اربوں کی تعداد میں ہیں مگر آپ کی سنت پر عمل کرنے والے نایاب ہیں۔
اگر عرب کے مٹھی بھر لوگ آپ سے تربیت پاکر پوری دنیا پر چھا سکتے ہیں تو وہی کردار و ایمان اگر ہم اپنا لیں تو پھر دنیا کے فاتح بننے سے ہمیں دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ،،،،، قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ……(اے نبی) کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطائیں معاف کر دے گا ۔
آج ہم اللہ کی محبت کے بھی طلبگار ہیں اور اپنی خطاؤں کی معافی کے بھی خواہشمند لیکن سنت پر عمل کرنا بہت مشکل لگتا ہے۔ آج ضرورت ہے ان ماؤں کی جو گھٹی میں سنتوں کی ڈوز دیں اور اپنے عمل سے سنت کا تعارف بنیں۔
اسی طرح استاد جو قوم کا معمار ہے اس کا اولین فرض ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پڑھائیں نہیں کردار میں ڈھال دیں ۔آپ کی سنت سبقاً سبقاً پڑھنے کے لیے نہیں کردار میں ڈھلنے کے لیے آئی ہے۔ آج ہمارے گھر گھر میں محفل میلاد تو سجتی ہے اور سرکار کی آمد مرحبا کے نعرے بھی گونجتے ہیں لیکن نہ کسی کو میلاد کا مطلب پتہ ہے اور نہ مقصد۔
آج ان کا کلمہ، ان کے ماننے والوں ہی کی زندگی میں نظر نہیں آتا۔۔۔۔۔آپ تو رسول اللہ ہیں۔۔۔۔۔رسول بھی وہ جو اسوہ حسنہ ہیں۔جو قابل تقلید ہیں، قرآن اگر حکم دیتا ہے تو وہ کر کے دکھاتے ہیں ۔۔۔۔۔وہ نمونہ جس پر ہمیں چلنا ہے۔۔۔۔نہ کم اور نہ زیادہ۔۔۔ورنہ بدعت و کفر کی مہر لگ سکتی ہے۔
اللہ کی محبت ،رسول کی محبت اور رسول کی محبت، اللہ کی محبت ہے۔۔۔۔۔۔۔اور محبت تو ثبوت مانگتی ہے۔۔۔۔ہم دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن ثبوت دینا مشکل ہے۔۔۔۔سب اپنی مرضی کا دین جیتے ہیں جبکہ دین تو وہی ہے جو سنت سے ثابت ہے ۔
اگر اربوں مسلمانوں میں سے صرف بیس فیصد بھی نبئ آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور اصل دین پر چلنے لگیں تو آنے والے سالوں میں امت مسلمہ کو دنیا کی زمام کار تھامنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔
اے چھوٹے چھوٹے مقاصد کے لیے جینے والے مسلمانو،اٹھو اور اپنے اصل مقصد کو پہچانو، نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑی سنت کو تھام لو۔۔۔۔۔۔۔کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون ںالمعروف وتنھون عن المنکر۔۔۔۔۔۔کے مخاطب تم ہو۔۔۔۔۔۔اور یہی وہ سنت ہے جو،،،،،،وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْر……کی یاد دھانی کرواتی ہے۔
یہی وہ مشن ہے جس کے لیے اللہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان پیارے الفاظ میں تسلی دی کہ “آپ تو ان کی خاطر خود کو ہلکان کر ڈالیں گے “۔ یہی وہ غم تھا جسے آپ سجدوں اور قیام میں اپنے رب کے سامنے رکھتے۔۔۔۔۔اور روتے جاتے اور امتی ،امتی پکارتے جاتے۔ آج وہی امت اپنے نفع نقصان کے معیار بدلے، اپنی مرضی کا دین لیے پھرتی ہے۔
اے قوم ابھی بھی وقت ہے، قوم یونس کی طرح اپنے رب کی طرف پلٹ آؤ۔۔۔۔۔۔پھر رزق کا وعدہ اللہ کے ذمے ہے۔۔۔۔۔۔اس رییع الاول میں نبئ محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن کو تھام لیجئے۔۔۔۔۔۔۔بس یہ تقاضا ہے اس محبت کا جو مجھے یا آپ کو اپنے نبئ آخرالزمان سے ہے۔ آئیے اس ربیع الاول میں وعدہ کریں صرف دعوئ محبت نہیں،عمل سے ثابت کردیں گے کہ ہم ہی ہیں اصل عاشق رسول۔
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم