لاکھوں درود اور کروڑوں سلام اس ذات اقدس پر جو محبوب رب دو جہاں اور وجہ تخلیق کون و مکاں ہیں جن کو رب ذوالجلال نے قرآن مجید میں کبھی یاسین کبھی طہٰ کہہ کر مخاطب کیا توکبھی پیار سے یا ایھا المدثر اور یا ایھا المزمل کہہ کر پکارا کہیں ولَسوف یعطیک ربک فترضیٰ کہہ کر دل جوئی کی تو کہیں انا اعطینک الکوثر کی صورت میں خوشخبری عطا کی۔
جب دنیا ظلمتوں کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی تھی، ہر طرف جہل کا گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا، انسانیت غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی اور ظلم و بربریت کا راج تھا ایسے میں سرزمین حجاز کی بے آب و گیاہ وادی رحمت خداوندی کے برسنے کا انتظار کر رہی تھی اور بطحا کی پہاڑیاں ایسے مسیحا کو پکار رہی تھیں جو آکر ان پہاڑوں کی طرح سخت دل لوگوں کو موم کردے اور آخر کاران سب کا طویل انتظار ختم ہوا، رب العالمین کی رحمت جوش میں آئی اور اس نے سر زمین عرب میں اس ہستی کو مبعوث فرمادیا جنھیں آج دنیا ہادیء برحق، مخبر صادق، خاتم النبیین، شافع المذنبین، رحمت اللعالمین، احمد مجتبیٰ، محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے نام سے جانتی ہے۔ جن کی بعثت نے سرزمین عرب کے تن مردہ میں جان ڈال دی۔ ظلمت و جہل کے اندھیروں میں بھٹکنے والوں کو روشنی کی کرن نظر آگئی۔ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے لوگوں کو رہائی ملنے لگی۔ وہ قبیلے جو صدیوں تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہتے تھے آپس میں شیر و شکر ہونے لگے۔ وہ سخت دل لوگ جو بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی دفن کر دیا کرتے تھے بارگاہ رسالت میں آ کر رو رو کر معافیاں مانگنے لگے۔ غریبوں محتاجوں اور مسکینوں کو ان کا غم خوار مل گیا۔ خواتین جن کی عرب معاشرے میں کوئی حیثیت تھی نہ عزت نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نازک آبگینے قرار دے کر ان کی عزت اور حرمت کو چار چاند لگا دئیے۔
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور ایک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
غارِ حرا کو یہ شرف حاصل ہے کہ نبوت سے پہلے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تنہائی میں یہاں اپنے رب کی عبادت کیا کرتے تھے اور پہلی وحی کی صورت میں نور ہدایت لے کر اپنی قوم کے پاس آئے تھے۔ وہ جو نبوت کی سرفرازی سے پہلے صادق و امین تھے جن کی ذہانت، متانت، سنجیدگی اور بردباری کی مثالیں دیتے ہوئے عربوں کا سر فخر سے بلند ہوتا تھا دعویٰ نبوت کے بعد سب کے سب آپ کے جانی دشمن بن گئے۔ دعوت حق سے روکنے کے لیے نہ صرف انہیں لالچ دیا گیا بلکہ نعوذ باللہ مجنوں، کاہن اور شاعر تک کہا گیا۔ اس سے بھی بات نہ بنی تو اذیتیں دی گئیں، طائف کی وادی میں پتھر مارے گئے حتیٰ کہ جادو ٹونے کا سہارا بھی لیا گیا اور زہر بھی دینے کی کوشش کی گئی لیکن رسول برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی تبلیغ کا کام جاری رکھا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح سے شمع رسالت کے گرد پروانے اکٹھا ہونا شروع ہو گئے اور لوگوں نے دین حق کو قبول کر کے صحابی رسول ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
بطحا کی پہاڑیوں نے آخر وہ منظر بھی دیکھ ہی لیا کہ،،،
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی کیسی تربیت کی کہ وہ پوری دنیا کے لیے قیامت تک مشعل راہ بن گئے ان میں کوئی ابوبکر صدیق بنے، تو کوئی عمر بن خطاب، کوئی عثمان غنی بنے، تو کوئی علی کرم اللہ وجہہ، کوئی خالد بن ولید بنے تو کوئی عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ غرض کے نبی مہربان صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی صحبت جس کسی کو بھی نصیب ہوئی وہ کندن بنتا چلا گیا۔
ہم کیوں نہ رب العالمین کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں خاتم النبیین کا امتی بنایا اور ان کی محبت سے ہمارے دلوں کو سرفراز فرمایا لیکن اس محبت کا تقاضا یہ ہے کہ دین کی جس صورت کو نبی اخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے حوالے کر کے گئے اس میں بدعت پیدا نہ کی جائیں۔ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے محبت تو ایمان کا حصہ ہے جیسا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
“تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہ ہوگا جب تک میں (اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم) اس کے باپ اور اس کی اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ اس کے نزدیک پیارا نہ ہو جاؤں “(صحیح بخاری )
لہذا ہم بھی اگر نبی مکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی محبت میں کندن بننا چاہتے ہیں تو صبح و شام بلا ناغہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کے طرز عمل کو اپنانے کی کوشش کریں اور اس راہ میں اگر کوئی رکاوٹ آ جائے تو حب رسول کے جذبہء ایمانی سے کام لیتے ہوئے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت سے رہنمائی لیں اور دعا کرتے رہیں کہ جس طرح صحابہ کرام کے دل نبی کی محبت میں دھڑکتے تھے ویسے ہی محبت ہمیں بھی عطا ہو جائے اور جس طرح صحابہ کرام نے اپنی زندگی کا محور و مرکز نبی کی ذات گرامی کو بنایا تو اللہ نے انہیں دنیا کی امامت عطا کر دی اسی طرح اللہ ہمیں بھی توفیق دے کہ اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ہم پوری دنیا میں عام کرنے کے لیے اپنا حصہ ڈالیں تاکہ روز قیامت شافع المذنبین کے سامنے سرخرو ہو سکیں اور ان کے ہاتھوں جام کوثر پینا نصیب ہو سکے ۔آمین
وہ ختم الرسل، دانائے سبل، مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآن وہی فرقاں وہی یاسین وہی طہٰ