قمری تقویم کے تیسرے مہینے ربیع الاوّل کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس میں محسن انسانیت، محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ، خاتم المرسلین محمد صلی اللہ علیہ و سلم دنیا میں تشریف لائے ۔ جن کی ذات اعلیٰ صفات باعث برکات ہے ۔
آپ امن و عافیت ، شفقت و محبت کا مجمع، خلوص و الفت، حلم و سکنیت کا مرقع ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہترین گفتار، اعلیٰ کردار، نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو، ہر دم در گزری اور معافی کا اعلیٰ معیار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت و طریقت محض صلاح و فلاح اور عظمت و اشرفیت آدم کی بقا ہے۔ آپ فتنہ و فساد کی بیخ کنی اور امن و سلامتی کی ترقی کے لئے مبعوث ہوئے۔
آپ کی رسالت مکارم اخلاق اور رحمان و رحیم پرورد گار کی نعمت عظمیٰ کے اتمام کے لئے ہے۔ جب آپﷺ کی تشریف آوری ہوئی یہ دنیا جہالت و گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی تھی۔ ایک طرف کفر و جہالت کا دور دورہ تھا تو دوسری جانب کون سی معاشرتی، سماجی اور اخلاقی برائی تھی جس میں یہ دنیا مبتلا نہیں تھی۔ عورت کو بطور انسان قبول کرنے سے انکار کیا جارہا تھا اور اسے اس قدر باعث ننگ و عار بنادیا گیا تھا کہ بچیوں کو زندہ درگور کرنا عام معاشرتی چلن ہوگیا تھا۔ شرک اور بت پرستی کے عادی اس معاشرے میں، قبائلی عصبیت، ضد اور انا پرستی کا عالم یہ تھا کہ کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا، کہیں پانی پینے پلانے پر جھگڑا۔ سود، بددیانتی، بدکاری، بدمعاشی، جوا، جھوٹ، فریب اور شراب نوشی وغیرہ کو برا نہ جاناجاتا تھا۔ اپنے جیسے انسانوں کو غلام بنا کر ان پر ظلم اور جبر روا رکھنا باعث فخر سمجھا جاتا تھا۔ ایسے حد سے گزرے ماحول میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے نجات دہندہ بن کر مبعوث ہوئے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی پوری مخلوق سے حتیٰ کہ حیوانوں ، پرندوں اور نباتاتی حیات سے بھی محبت تھی۔ آپ کو خالق کائنات نے دل ہی ایسا دیا تھا کہ جس میں محبت کے زمزمے رواں دواں رہتے ۔ اپنے اہل و عیال سے محبت اور حسن سلوک کو آپؐ نے اہل ایمان کی اعلیٰ ترین اخلاقی خوبی قرار دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت مختصر مدت میں ایسا انقلاب برپا کیا کہ تاریخ عالم اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیش کردہ کلمہ حق جس دل میں اترا اس کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرح کی معاشرتی آلودگیوں میں لتھڑا ماحول ایسے پاکیزہ معاشرے میں تبدیل ہوگیا اور عرب کے بدو ایسے تہذیب آشنا ہوئے کہ آج کی مہذب ہونے کی دعویدار دنیا ان کے قدموں کی خاک کو چھونے سے بھی قاصر ہے ۔ آپؐ نے ہر طرح کی خرافات اور مسائل و آلام میں الجھی ہوئی دنیا کی گتھیوں کو کچھ اس انداز میں سلجھایا کہ دنیا آج بھی انگشت بدنداں ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امن و سلامتی کا جو راستہ دنیا کو دکھایا، امانت و دیانت کا جو سبق پڑھایا، اسراف و تبذیر سے بچاکر اعتدال و میانہ روی سے روشناس کرایا، فحاشی و بے حیائی سے ہٹا کر وقار، متانت اور حیا کی راہ پر لگایا، بدلے اور انتقام کے بجائے عفو و درگزر پر عمل کرکے دکھایا، عبادت ہی نہیں سیاست اور تجارت میں بھی رہنمائی کی، حرام اور حلال میں تمیز کرنا سکھایا، علم و عمل، آسائش دنیا اور جہاد کو مومن کی متاع قرار دے کر جہالت اور رہبانیت کی جڑ پر تیشہ چلایا۔آپﷺ نے کمزور افراد اور طبقات عورتوں، بچوں، مسکینوں، یتیموں اور محکوموں سے بہتر سلوک کی ترغیب دی اور ان کے ساتھ غیر اخلاقی رویہ اختیار کرنے سے سختی سے منع فرمایا۔ اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ کی وعید سنائی۔ غرضیکہ ایک فرد کی ذاتی زندگی سے لے کر قومی اور بین الاقوامی معاملات تک ، ہر ہر شعبے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین رہنمائی اور اسوۂ کامل عطا فرمایا۔
آج دنیا کمزوروں اور مظلوموں کے حقوق کا اظہار اور اعلان کرتی ہے اور اس کے لیے قوانین بھی وضع کیے جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس کا سہرا دور حاضر کے سر باندھتے ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ معاشرے کے کمزور اور بے بس انسانوں کے حق میں سب سے پہلے آواز اٹھانے اور ان کے حقوق کی حفاظت و صیانت کے لیے اقدامات کرنے کا اعزاز اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہے ۔ آج بھی انسانیت خصوصاً امت مسلمہ کے لیے ذلت و خواری، غربت و افلاس، بے وقاری اور زوال و ادبار سے نجات کی واحد صورت اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو محض محدود مدت اور مخصوص زمانے کے لیے رہبر و رہنما بنا کر نہیں بھیجا، بلکہ ان کی ذات اقدس رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے بہترین نمونہ اور کامل رہنمائی کا سرچشمہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق اور محبت کے لیے آپ ﷺکی اتباع کو لازم قرار دیا گیا ہے ۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا، اور اللہ غفور و رحیم ہے ۔ ( سورۃآل عمران )‘‘ آئیے! جشن عید میلادالنبی ﷺمناتے ہوئے عہد کریں کہ ہم اپنی زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کے مطابق چلانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ اپنی زندگی، اپنے ماحول ، اور اپنے معاملات کو آپؐ کی زندگی کے مطابق ڈھالیں گے۔ آپ ﷺکی زندگی کو مشعل راہ بناتے ہوئے اپنے معاشرے میں اخوت کے وہی پھول کھلائیں گے جو خاتم المرسلین ﷺکی زندگی کا خاصا ہیں۔