مایوسی کفر ہے۔رات کتنی ہی گہری کیوں نہ ہو سویرا ہو کے رہتا ہے۔کبھی خوشی کبھی غم ،کبھی دھوپ کبھی چھاؤں، کبھی صبح کبھی شام۔۔۔زندگی میں ٹھہراؤ ممکن نہیں۔۔۔۔جو ٹھہر گیا وہ زندہ نہیں۔
گویا اس دنیا کی ہر گھڑی ایک ہی سبق مل رہا ہے۔۔۔۔کبھی مایوس مت ہونا
اندھیرا کتنا گہرا ہو ،سویرا ہو کے رہتا ہے۔۔۔۔
مجھے سمجھ نہیں آتی ان لوگوں کی جو امید نہیں دلاتے،مایوسی پھیلاتے ہیں۔کوئی کہتا ہے اس ملک میں کچھ نہیں رکھا۔۔۔۔باہر نکلنے کی کرو۔
کوئی کہتا ہے اب اس ملک کے حالات کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتے۔
کوئی کہتا ہے اب تو یہ ملک بچتا نظر نہیں آتا۔
غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔حالات جتنے بھی برے ہو جائیں ہمیں مایوس نہیں ہونا۔
یہ سچ ہے کہ اس وقت وطن عزیز ہر طرح کے بحران سے گزر رہا ہے۔۔۔۔لیکن سوچنے کی بات ہے اس کو اس حال تک پہنچانے والا کون ہے؟
کسی سے یہ سوال کریں تو جھٹ آنکھیں بند کر کے دو فیصد سیاستدانوں اور حکمرانوں پر اس کا ملبہ ڈال دیں گے۔۔۔۔حالانکہ اس حالت کے ذمہ دار آپ اور میں ہیں۔۔۔۔جی ہاں ،آپ اور میرے جیسے خاموش تماش بین جو سامنے پڑے زخمی کی آخری سانسوں کا تو انتظار کرتے ہیں مگر آگے بڑھ کر اپنے سانس سے اسے زندگی دینے کی کوشش نہیں کرتے۔ہمیں تو ہیں جو ہر پانچ سال بعد بھولے بن کر خوشی خوشی انہی لٹیروں کو ووٹ ڈال کر آتے ہیں اور پھر باقی پانچ سال مہنگائی اور حالات کا رونا روتے رہتے ہیں۔
جب ووٹ ڈالتے ہیں تو نہ کردار دیکھتے ہیں نہ اخلاق،نہ دین دیکھتے نہ حیا اور پھر باقی پانچ سال یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں بندہ کوئی نہیں اچھا۔۔۔۔سب آزما لیے۔
شتر مرغ کی طرح گردن ریت میں دبا کر ہم حالات سے بچ نہیں سکتے۔
اور نہ ہی راہ فرار اختیار کر کے حالات سدھر سکتے ہیں۔اس وطن کو تباہی کے دہانے پر ہم نے پہنچایا ہے تو اسے بچانا بھی میرا اور آپ کا فرض ہے۔طوفان جتنے بھی منہ زور ہوں ،موت چاہے منہ کھولے سامنے ہو لیکن ملاح پتوار کبھی نہیں چھوڑتا ۔۔۔۔وہ آخری لمحے تک ڈوبتی ناؤ بچانے کی کوشش کرتا ہے۔
صرف دو نسلیں قبل لاکھوں جانوں کی قربانی دیکر،ماؤں ،بہنوں کی عزتیں قربان کر کے ۔کیا یہ وطن اس لیے حاصل کیا تھا کہ ہم اپنی اگلی نسلوں میں مایوسی بانٹیں اور انہیں اپنے ایمانوں کے سودے کے عوض درہم و دینار کاسبو پڑھائیں۔۔۔۔بھوک تو کٹ جاتی ہے۔۔۔۔ایمان بک جائے تو باقی کیا رہتا ہے؟
حالات کتنے بھی خراب ہو جائیں۔۔۔۔تبدیلی آ کے رہے گی۔
خدارا ! اپنی نسلوں میں مایوسی مت پھیلائیے۔انہیں اپنی ذات سے نکل کر بڑے مقصد کے لیے جینا سکھائیے۔
انہیں فرار کی بجائے۔۔۔۔سینہ سپر ہونا سکھائیے۔
پیٹھ موڑنا نہیں ڈٹ جانا سکھائیے۔۔۔۔انہیں وقت کےطاغوت کے سامنے جھکنا نہیں کٹنا سکھائیے۔انہیں حق کہنا اور حق سننا سکھائیے۔۔۔۔پھر دیکھیئے حالات بھی سنوریں گے اور خوشحالی بھی آئے گی۔
پھر دریا نغمے گائیں گے اور کھیت لہلہائیں گے۔ ان شاءاللہ