انسانیت کےوہ طبقات بڑےہی قابل رحم ہوتےہیں جو معاشرےکےظلم کی وجہ سےپیٹ کےمسئلے میں اس بری طرح سےگھرجاتےہیں کہ زندگی کےاعلیٰ تقاضوں پرتوجع کرنےکاانہیں موقع نہیں ملتا۔ عرب کی بیشترآبادی اسی حال میں تھی۔ حضوراکرم ﷺ کی نگاہ میں اصل اہمیت انسان کی تھی۔ آپ نےدولت کوانسان کی خادمہ قراردیا۔آپ نےعرب میں معاشی توازن قائم کرکےعام انسانوں کی بنیادی ضروریات کاپوراپورااہتمام کردیا۔عام لوگوں کومجبورہوکرپیٹ بھرنےکےلیےغلامی کرنےسےنجات مل گئی۔
جب نبی کریم ﷺ نےدعوت کاآغازکیاتولوگوں کےسیاسی، معاشی، سماجی، انفرادی اوراجتماعی بےشمارمسائل موجودتھے۔ آپﷺ نےسب سےپہلےانسان کی ہدایت کامسئلہ حل کیا۔ جب یہ مسئلہ حل ہوگیاتو انسانی زندگی میں ہرشےکااصلی مقام اسےمل گیا۔
معاشی حکمت عملی: نبی کریم ﷺ نے معاشرےمیں ایک متوازی، معتدل، منصفانہ اورہرقسم کےاستحصال سےپاک عادلانہ معاشی نظام قائم کیا جہاں نہ فردکی حق تلفی کی گئی اورنہ معاشرےکو نقصان پہنچایاگیا۔ دونوں ایک دوسرےکےخیرخواہ اورتعمیروترقی میں ایک دوسرےکےمعاون ومددگار بن گئے۔
نبی کریمﷺ نےملیاتی جدوجہدپرجائزاورناجائزکے حدودمتعین کیے، چوری اورڈاکہ زنی کی شرعی سزائیں نافذکیں، بخل اورذخیرہ اندوزی کی شدید مذمت کی اورفردکےحق ملکیت کوبرقراررکھتےہوئے اس پربےشمارنوعیت کےحقوق وفرائض عائدکر دیئے۔
آپ ﷺ نےمعاشی مسئلےکوصرف قانون ہی کےزورسے حل نہیں کیابلکہ اخلاقی ذرائع سےبھی اسے سلجھانےکی تدابیراختیارکیں۔تعلیم وتربیت کےذریعے معاشرےمیں پاکیزہ ماحول پیداکردیاتاکہ معیارزندگی کی مسابقت، دلوں کی جلن، رشک وحسدکےجذبات کی پرورش اوراپرکی طرف دیکھنے اورترسنےکی کیفیت پیدانہ ہونےپائے۔ آپﷺ نےتعلیم دی کہ ہرشخص سےآخرت میں جوپانچ سوالات ہونےوالےہیں ان میں یہ دوسوال بھی شامل ہیں کہ دولت کس ذریعےسےکمائی اورکن کاموں پرخرچ کی۔ ان سوالات کی جوابدہی کےبغیرانسان کےقدم عرصہ محشرسےنہ ہٹ سکیں گے۔ فضول خرچی کرنے والوں کوشیطان کابھائی قراردیاگیا۔
ہجرت کےبعدفوری کام ان بےیارومددگار، بےدراوربے زرمہاجرین کی آبادکاری کامسئلہ تھاجومکہ اوریگر قبائل کی طرف سےمنتقل ہورہےتھے۔ اس مسئلے کا بہترین حل آپ نےمواخات کےذریعے تلاش کیا۔پھر اسلامی نظام اخوت کی یہ برکات صرف مدینہ ہی تک محدود نہ تھیں بلکہ چاروں طرف آہستہ آہستہ پھیلنےلگیں اورایک دن آیاکہ ساراعرب ان سےیکساں فیضیاب تھا۔
نبی کریم ﷺ نےسودکوقطعی حرام قراردےکرثابت کردیاکہ انسانوں کوسرمائےکےلیے قربان نہیں کیاجاسکتا۔ قرض حسنہ کی ترویج کی۔ قرضوں کواداکرنےکی تاکیدکےساتھ ساتھ قرضوں کومعاف کردینےکی طرف بھی لوگوں کارخ موڑدیا۔ آپ ﷺ نےمحنت کےساتھ حاجت کااصول بھی معاوضوں کی تعیین اوروضائف کےتقررمیں ملحوظ رکھا۔ چنانچہ مال غنیمت میں مجردکےلیے ایک اورشادی شدہ کےلیےدوحصےمقررفرمائے۔
منصفانہ تقسیم دولت: نبی کریم ﷺ نےدولت کوگردش میں رکھنےکااصول رائج کیاتاکہ زیادہ سےزیادہ لوگ دولت سےفائدہ اٹھاتےرہیں اورکوئی شخص بھی اس پرسانپ بن کرنہ بیٹھ جائے۔
عرب جیسےکم پیداواروالےملک میں دولت نہایت محدودحلقوں میں سمٹی ہوئی تھی۔ یہ مسئلہ سرگرمیءجہادسےبحسن وخوبی حل ہوگیا۔مدینہ کی اسلامی فوج نےجگہ جگہ سےسمیٹی ہوئی دولت کوقیدسےنکالااورگردش میں ڈال دیا۔ تقسیم وراثت کےذریعےبھی دولت کےسمٹاؤ کووقفےوقغےسےمنتشرکرنےکااہتمام کیاگیا۔
آپ ﷺنے زکوٰۃ، خیرات، حقوق اقرباء، حقوق والدین، ہمسائے، اہل محلہ اورپوری سوسائٹی کےحقوق مقررکرکےدولت والوں کے خزانوں کی بےشمارنالیاں نکال دیں۔ اس سلسلےمیں کسی قسم کےاحسان وامتنان کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ آپ نےبنی نضیرکی اراضی کوتمام ترصرف غریب مہاجرین ہی میں تقسیم کردیاتھاتاکہ دولت صرف امراء ہی میں گردش نہ کرتی رہے۔
نبی کریم ﷺ نےغریب لوگوں کودولت مندوں کی خیرات اورانکےرحم وکرم پرنہیں چھوڑدیابلکہ زکوٰۃ کوارکان اسلام میں شامل کرکےجزودین بنادیا۔ گویایہ غریب ہیں جوامراء پرزکوٰۃ کےزریعےہرسال ٹیکس عائد کرتے ہیں۔ آپﷺ نےکسی پیشےیاذریعہ معاش پرکسی فردیا ریاست کی اجارہ داری قائم نہ رہنےدی۔ ہرجائزکام کےدروازےہرشخص پرکھول دیے۔ اجتماعی کفالت کا اصول اتنامؤثراندازمیں نافذکیاگیاکہ جس بستی میں کوئی شخص بھوک سےمرجائےاس بستی پراس شخص کی اجتماعی دیت عائدکی گئ۔یہی وہ عدل اجتماعی ہےجسکی دنیاکی کسی سوسائٹی میں بھی نظیرموجودنہیں۔ اس نظام معاش کوچلتےہوئے ابھی چندسال بھی نہ گزرےتھےکہ زکوٰۃوصول کرنےوالےحاجتمندوں کی دستیابی دشوارہوگئی۔
حضوراکرمﷺ کاطرزعمل: حضوراکرم ﷺ نےاپنےاپکومعاشی لحاظ سےرضاکارانہ طورپر اس مقام فقرپررکھاجس پرپورےاسلامی معاشرےکا شایدکوئی ایک فردبھی کھڑاہونےکی ہمت نہ رکھتاتھا تاکہ امراء عزت کاحقیقی مفہوم پہچانیں اورغرباء بےحوصلہ نہ ہوں۔آپ کی زندگی کاہرگوشہ سادگی کا نمونہ تھا۔رہائش میں سادگی، لباس میں سادگی، خوراک میں سادگی اورنششت وبرخواست میں سادگی۔ یہی طرزعمل اپنےاہل بیت کےلیےبھی پسند فرمایا۔آپ ﷺ کثرت سامان میں ملوث ہونےکواپنے منصب سےفروترخیال کرتےتھے۔
نبی کریم ﷺ اورعوام کےدرمیان کوئی پردےحائل نہ تھے۔حکمران کی حیثیت سےآپ نےبیت المال میں کبھی کوئی رقم پڑی نہ رہنےدی بلکہ جب کوئی حاجت مندسامنے آیاتوجوکچھ ممکن ہوااسےدلوادیا۔ حدیہ تھی کہ بسااوقات بیت المال اورذاتی مِلک میں کچھ نہ ہواتوسائلوں کی امدادکےلیےقرض تک لیا۔ حضرت ابوبکرصدیق کافرمان ہےکہ حضوراکرم ہمیں اتنے ہدیےبھیجتےکہ بعض دفعہ ہم آپکےارسال کردہ ہدیے ہی اپنی طرف سےہدیےکےطورپرآپکی خدمت میں بھیج دیتے۔ایک دفعہ بحرین سےخراج کی بڑی کثیردولت آئی اس سےزیادہ مال کبھی مرکزحکومت میں نہ آیاتھا۔ آپﷺ نےصحن مسجدمیں ڈھیرلگوایااور پھرجوجوآتاگیااسےدیتےچلےگئے۔ یہاں تک کہ کپڑے جھاڑکراٹھےاورگھرتشریف لےگئے۔
حضوراکرم ﷺ کایہی وہ نمونہ تھا جس نےبعدمیں آنےوالےاسلامی مملکت کےسربراہوں کےسامنےاسلامی ریاست کےسربراہ کامعیارزندگی متعین کردیا۔ آج بھی انسانیت کوایسےہی معاشی نظام کی ضرورت ہےجسکانمونہ اپنےاپنی سوسائٹی میں پیش کرکےدکھادیا۔دکھ دردکی ماری ہوئی انسانیت کی فلاح ہردورمیں اسی نظام ہی میں مضمرہے۔
اُمت کی حالت زار: نبی کریم ﷺ کاکرداراس بےمثل ساقی کی مانندتھاجس نےدریاکےکنارےکھڑےہوکرخودپیاسےرہ کرپوری دنیاکوسیراب کردیا۔ جولوگ قربانی اورجاں سپاری کی صفت سےعاری ہوں وہ کسی بلند نصب العین کےلیےجان نہیں کھپاسکتے۔ مومن جسےاس دنیاکواللہ اوررسول کےاحکام کے سامنےمغلوب کرناہےاگروہ خوددنیاسےمغلوب ہوجائےتوپھرغلبہءدین کہاں اورکیسےہوگا۔ اپنے مقصدزندگی پراپنےروزمرہ کےمعاشی کاروبارکو ترجیع دینامومن کوہرگززیب نہیں دیتا۔
آج مسلمان تعلیمات دینی سےبےگانہ اورمعیارزندگی کی فکرمیں غلطاں ہوکرمعیارآدمیت سےقطعی غافل ہوچکےہیں۔ مسلمان دنیامیں ضرورت سےزیادہ ملوث ہوکرتباہ وبربادہوگئے۔ہائےافسوس ! کہ مسلمانوں کے دسترخوان انواع واقسام کی نعمتوں کی نمائش گاہیں بنےاورمسلمان خودساری دنیاکےکےلیےدستر خوان بن گئے۔۔۔۔۔۔ماخوذ