آپ نے اس اندھے کا لطیفہ تو سنا ہوگا، جو ایک دعوت میں شریک ہوا۔اس نے اپنے ہمراہی سے یہ کہہ رکھا تھا کہ جب دستر خوان لگ جائےتومجھے، ایک کہنی مار کر اشارہ کردینا، جب کھانا شروع ہو تو مجھے ایک اور کہنی کا ٹہوکہ دینا تو میں سمجھ جاؤں اور کھانا شروع کردوں گا۔ اب محفل میں دستر خوان لگ گیا۔ اوراس کے ساتھی نے، اسے کہنی کا ٹہوکہ دے کراشارہ بھی دے دیا۔ اس اثنا میں کھانا لگ گیا۔ لیکن ابھی کھانا شروع نہیں ہوا تھا۔ اتفاق سے اندھے کے ساتھی کا ہاتھ اس سے ٹکرایا، اندھے نے کھانا شروع ہونے کا اشارہ سمجھ کر کھانا شروع کردیا۔ چونکہ کھانا شروع نہیں ہوا تھا۔ اس لیے اندھے کو روکنے کے لیے اس نے دوبارہ کہنی ماری، تو اندھے نے تیزی سے کھانا شروع کردیا۔ اب اس کے ساتھی نے گھبرا کراندھے کو روکنے کے لیے دو تین کہنی ماری تاکہ وہ کھانا بند کردے۔ اندھے نے مزید تیزرفتاری سے کھانے پرہاتھ چلاتے ہوئے، پوچھا کیا لوٹ مچ گئی ہے ؟
پاکستان میں گذشتہ عرصے میں جو لوٹ مار کا بازار گرم ہوا ہے، اس کی مثال ایسی ہی ہے “جیسے لوٹ مچ گئی ہو” لوٹ مار کرنے والے بہت با اختیارہیں، اس لیے اب نہ تو کوئی ان پر ہاتھ ڈالتا ہے، اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئی تحقیقات اور مقدمات بنتے ہیں۔ اور اگر یہ ہوتا بھی ہے،” تو لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا” معاملہ ہوتا ہے۔ تین چار ماہ سے تحقیقاتی ادارے لاہور میں منشیات کے اسمگلنگ کے ایک کیس کی تفتیش کررہے تھے۔ اب اس سلسلے میں ہولناک انکشافات ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں کہ اس میں انسداد منشیات کے ایک ڈی ایس پی ملوث ہیں۔ جن کو لوگ پیار سے ” مظہری ” کہتے ہیں۔ چونکہ یہ ہیروین کی اسمگلنگ ڈرون کے ذریعے ہورہی تھی، اور بھارتی پنجاب تک اس کے سرے جاتے تھے، اس لیے بڑی ہائی لیول کی انویسٹیگیشن ہوئی۔ ورنہ اس کیس کا پتہ بھی نہ چلتا۔ اس کیس میں 35 کلو ہیروین پکڑی گئی لیکن گرفتاری کی ایف آئی آر میں صرف 400 گرام ہیروین دکھائی گئی۔ یہ لمبا ہاتھ تو پولیس والوں نے مارا۔ جو ڈی ایس پی نارکوٹک اس کیس میں ملوث ہیں، ان کا سابقہ ریکارڈ بھی شاندار ہے، انھیں 1994 سے لے کر اب تک چھ مرتبہ ملازمت سے برطرف کیا گیا اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں 45 مرتبہ ملازمت سے معطل کیا گیا، جن میں زیادہ تر منشیات کی اسمگلنگ سے متعلق کیس ہیں۔ ان کی مبینہ غیر قانونی جائیدادوں کی مالیت کا تخمینہ 2 ارب روپے سے زیادہ ہے، لاہور کے تھانوں میں ان کے خلاف 13 مجرمانہ مقدمات درج ہیں۔ ان کے اپنے محکمے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (ACE) لاہور نے ان کے خلاف پانچ فوجداری مقدمات درج کرائےہیں۔ وہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی لاہور میں 4 کنال کے ولا میں رہائش پذیر اور ڈی ایچ اے میں سات مزید مکانات کا مالک بھی ہے۔ پولیس سروس کے دوران اس نے 125 مہنگی کاروں بھی خریدی، لاہور کے ایک سابق سی سی پی او نے مجرمانہ ریکارڈ رکھنے کے باوجود مظہری کو لاہور میں اے این آئی یو کا سربراہ مقرر کیا تھا۔
اسی طرح کچھ عرصے پہلے وزیراعظم ہاؤس میں بلوچستان میں ہونے والی تیل اور پیٹرول کی اسمگلنگ سے متعلق ایک تحقیقاتی رپورٹ جمع کرائی گئی ہے، جس میں انکشاف کیا گیا ہے انتیس سیاستدان اور نوے کے قریب سرکاری افسران ایران سے پٹرول کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ اب اس رپورٹ پر بھی چوہدری شجاعت حسین کے مقولے” مٹی پاؤ” پر عمل کیا جارہا ہے۔ اس اسمگلنگ میں 50 ہزار سے زائد گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں روزانہ 600 گاڑیوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ ایران سے تیل لے کر آئیں جس کے لیے باقاعدہ ڈپٹی کمشنر کی طرف سے ان کو ٹوکن جاری کیا جاتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ 15 لاکھ لوگوں کا اس سے روزگار وابستہ ہے۔ اب ہم اتنے لوگوں کو بے روز گار تو نہیں کرسکتے۔
سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت دو دہائیوں سے قائم ہے، اس کی کرپشن کے ریکارڈ سب سے زیادہ ہیں۔ سندھ کے مالیاتی نظام میں163 ارب روپے سے زائد کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف تو آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے کیا ہے۔ اس کی سال برائے 2019 تا 2020 کی رپورٹ دیکھ لیں، جس میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے سندھ حکومت کی جانب سے من پسند افسران اور ملازمین کو نوازنے کے لیے 3 ارب روپے خلاف ضابطہ تقسیم کرنے ، مختلف محکموں میں خریداری کی مد میں 47 ارب روپے اور بغیر دستاویزی ثبوت کے ریکارڈ 113 ارب خرچ کرنے کے بارے میں تفصیل دی ہے۔ سندھ حکومت نے ملازمین و افسران کو 2 ارب کے قرضے دیے جو کہ تاحال واپس نہیں لیے گئے ہیں۔ سندھ حکومت نے سرمایہ کاری کی مد میں ملنے والے 9 ارب روپے منافع کا ریکارڈ بھی ظاہرنہیں کیا۔ نسلہ ٹاور کی زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کرنے والے پیپلز پارٹی کے فرنٹ مین منظور قادر کاکا فی الحال گرفتار ہیں، لیکن ان کی ضمانت کی بھرپور کوشش جاری ہیں۔
منظور قادر کاکا کے خلاف کراچی میں تقریبا 50 ارب روپے کی زمینوں کی الاٹمنٹ اور زمینوں کی حیثیت تبدیل کرنے کی انکوائری اور تحقیقات بھی زیر التوا ہیں۔ یہ تو کرپشن اور لوٹ مار کے نظام کی چند جھلکیاں ہیں، ورنہ لوٹنے والوں کو بچانےوالے ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں، عمر عطا بندیال جاتے جاتے جن نیب مقدمات کو بحال کرگئے ہیں، ان کی تعداد 1800 سے زائد ہے، اور اس میں سارے سیاست دان، بیوکریٹ، اور اعلی افسران ملوث ہیں، جو ہمیشہ سے مقدس گائے ہیں، اور ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔