بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ملکی حالات کو دیکھ کر یہ سوال آپ کے اذہان میں بھی گونجتا ہوگا کہ کیا ہمیں واپس لوٹنا ہو گا ؟ اگر ہم اپنے ماضی کی طرف نظریں دوڑائیں تو دیکھیں گے کہ ہماری کچھ روایات تھیں اور ایک مخصوص طرز زندگی تھا۔ بزرگ اشخاص اکثر یہ بیان کرتے ہیں کہ صبح کے وقت ہمیں لسی ملتی تھی۔ لسی ایک بہترین اور صحت افزاء مشروب ہے۔ اس کی وجہ سے اس دور کے لوگوں کے اندر طاقت تھی۔ ذرائع آمد و رفت کے لیے اونٹ اور گھوڑے استعمال ہوتے تھے اور لاہور جیسے بڑوں شہروں میں ٹانگے بہترین سواری تھے۔ پھر وقت بدلا انڈسٹریل ڈیولپمنٹ ہوئی لسی کے مشروب کی جگہ چائے اور کافی نے لے لی اور اونٹ، گھوڑوں کی جگہ بسوں اور کاروں نے لے لی۔ ہر چیز اچھی چل رہی تھی اور ملک پاکستان کے حالات 76 سال ہوگئے ہیں کبھی بھی مکمل طور ٹھیک نہیں ہوسکے ہمیشہ سیاسی عدم استحکام رہا ہے جس کے اثرات عوام آج بھی برداشت کر رہی ہے۔
مہنگائی اس سے قبل بھی ہوتی تھی لیکن جس شرح سے موجودہ دور میں ہوئی ہے اس نے جو رفتار پکڑی ہے اس پرعوام حیران و پریشان ہے۔ اب شاید ہمیں اپنی روایات کی طرف واپس لوٹنا ہوگا۔ ہمیں وہی لسی کا مشروب اطمینان دے گا اور وہی اونٹ، گھوڑے کام آئیں گے۔
یہ بھی حقیقت ہے جب انسان کے پاس معاشی آسودگی ہوتو وہ اپنی طرززندگی کو بہتر بناتا ہے لیکن جب اس طرح کی مہنگائی ہو تو بندہ روایات کا پاسبان بن جائے یہ بہترین عمل ہے۔
ویسے بھی دیکھا جائے تو واپس تو ہمیں لوٹنا پڑے گا۔ موت بھی حقیقت ہے اور ہماری روح نے ایک دن پرواز کر جانا ہے۔ ہمیں واپس اپنے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور جواب دینا ہے لیکن شاید ظالم طبقہ اس بات سے بے خبر ہے کہ صرف اس مہنگائی میں غریب لوگ روایات کی طرف لوٹیں گے لیکن ظالم طبقہ کو بھی واپس لوٹ کر جانا ہے اور جوابدہ ہونا ہے۔ اگر آج بھی پاکستانی قوم صرف اللہ کی راہ پر واپس آجائے اور احکام دین پر عمل کرے تو اللہ اپنی مدد فرمائے گا۔
آج پورے ملک کی معیشت سود پر چل رہی ہے ہر بینک میں سودی سسٹم ہے اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بھی سود پر امداد مہیاء کرتے ہیں۔ ہماری پوری قوم سود کھا رہی ہے اور اسی سود کے متعلق حکم ہے کہ سود والوں کی اللہ اور اس کے رسول سے کھلی جنگ ہے۔ ایک طرف ہم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نعوذ باللہ جنگ کا حصہ ہیں اور دوسری طرف دعائیں کر رہے ہیں اور پریشان ہو رہے ہیں۔ کیا ہم نے پاکستان سود قائم کرنے کے لیے حاصل کیا تھا؟
نہیں ہمیں اللہ کی راہ میں واپس لوٹنا تھا اس وجہ سے پاکستان حاصل کیا تھا۔ آج ہم جیسی عوام تمام کفار ممالک کو گالیاں دیتے تھکتے نہیں ہیں اور پھر ہمیں کہیں ڈالر نظر آجائیں تو منہ میں پانی آجاتا ہے۔ آج پورے سوشل میڈیا پر کفار ممالک کو گالیاں دیں رہے ہیں اور کل انہیں ممالک میں ویزا لگوا کر کام کرنے جائیں گے کیا منافقت پال رکھی ہے اس قوم نے ؟ کالی بھیڑیں پورے معاشرے میں ہر جگہ موجود ہیں لیکن کبھی سوچا کہ ہم آج تک بیرونی امداد پر پل رہے تھے جو اب ملنا بند ہوگئی ہے۔ اب ہم اپنے سفارت کاروں کے لیے مشکلات بڑھا رہے ہیں جو ان کفار ممالک میں ہم جیسوں کے لیے کام کرتے ہیں۔
اگر آج ہم اپنی اسلامی روایات کی طرف لوٹ آئیں اور ملک کی صرف خارجہ پالیسی ٹھیک کر لیں تو ریاست تمام مسائل سے نکل آئے گی۔ نہیں تو ہم یہی منافقت لے کر روتے رہیں گے۔ بہتر ہے واپسی کرنی ہی ہے تو اسلامی اصولوں اور نظریات کی طرف واپس لوٹ چلیں۔ اگر آپ دنیاوی مثال دیکھیں تو برطانیہ نے دنیا پر حکومت کی اور زوال کا شکار بھی ہو گئے لیکن آج بھی ان کا تحریری آئین نہیں ہے اپنی روایات پر وہ آج بھی کار بند ہیں۔ آج بھی اس ملک میں بادشاہت اور جمہوریت قائم ہے جبکہ پوری مسلم اُمہ میں خلافت کہیں بھی قائم نہیں کیوں؟ جواب ہے کہ ہم نے اصل روایات کو چھوڑ دیا۔ دانشور کہتے ہیں کہ ان ممالک نے جب اپنی کالونیاں چھوڑی تھیں تب تک وہ وہاں کی ثقافت کو ختم کر چکے تھے اس وجہ سے تو آج تھری پیس سوٹ پہننا تہذیب ہے اور پگڑی، دھوتی اور چادر جہالت۔ انگریزی بولنا اہل علم کی نشانی اور اردو بولنا غربت۔ کاش ہم بروقت واپس لوٹ جاتے یہ واپسی ممکن تھی اور اب بھی ممکن ہے لیکن منافقت کو پہلے چھوڑنا ہوگا۔ اللہ تعالٰی ہمیں بطور قوم فرداً فرداً ہدایت عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین