ایک نئی صبح کی تلاش

صبح فجر کے بعدایک سفر درپیش تھا، نماز کے بعد میں نے چائے کی فرمائش کی تو اہلیہ نے گیس نہ آنے کی نوید سنائی ۔ صبح سویرے گھروں میں گیس  نہیں آتی۔ شام کو بھی گیس کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ہماری زندگیوں میں دیکھتے ہی دیکھتے کتنی تبدیلی آگئی، سحر خیزی کی جگہ اب دن چڑھے  گھروں میں چولہے جلتے ہیں، اکثر بچوں کو بغیر ناشتہ یا ڈبل روٹی اور دودھ چائے پر ہی اسکول بھیج دیا جاتا ہے۔  پیٹرول کے دام بڑھتے جارہے ہیں، اوربجلی گیس کو مہنگا کرکے عوام کی کھال کھینچی جارہی ہے، عوام کی کھال بھی بہت موٹی ہوگئی ہے، اسے کچھ فرق ہی نہیں پڑتا۔ حکمران ٹولہ اشرافیہ کو دی جانے والی اربوں کی مفت بجلی گیس پٹرول اور دوسری بے شمار مراعات بند کر کے مالی وسائل بڑھا نے پر تیار نہیں ہے۔ وہ مسلسل اپنے تیز آزما رہے ہیں، اور عوام اپنے صبر کو آزما رہے ہیں۔ لیکن چند دن کے حکمرانوں  کو  لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کا انتظار نہیں کرنا چاہیئے، انھیں عوام کو ریلیف دینا چاہیئے۔

ڈالر کی قیمت کم ہونے سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہے، آٹا اور روٹی کی قیمت کم ہونی چاہیئے، پیٹرول کی قیمت کم ہونی چاہیئے، اشیاء صرف کی قیمتوں میں کمی ہونی چاہیئے۔ اگر یہ نہ کیا گیا تو پھر وہ وقت قریب آجائے گا، جب تخت اور تاج اچھالے جائیں گے اور راج  ہوگا خلق خدا کا۔  اس کے بعد حالات کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے۔ آئی ایم ایف کو آنے والے خطرات کا شاید اندازہ ہے تب ہی تو نگران وزیر اعظم سے آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ امیروں پر ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امیروں پر عملاً کوئی ٹیکس عائد نہیں ہے اگر کچھ رقم وہ ٹیکس کے نام پر دیتے بھی ہیں تو اس سے کئی گنا مالیت کی مراعات حاصل کرلیتے ہیں۔ الیکشن کی تاریخ کا  اعلان بھی مغربی دنیا کے بڑھتے ہوئے دباؤ  کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ لیکن ابھی حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ واقعی الیکشن ان تاریخوں پر ہوجائیں گے۔

پاکستان کی سلامتی اور ترقی کے لیے  کروڑوں دماغ  سوچتے ہیں، لیکن ملک کے وسائل پر ایک مخصوص ٹولہ قابض ہے۔ جو ان کی فکر سے استفادہ نہیں کرتا۔ یہ ٹولہ ملک پر 76 سال سے قابض ہے،  ابتدائی دو تین سال کے علاوہ اس ٹولے  نے پاکستان میں اپنی حکمرانی قائم کر رکھی ہے، جو ہمارے وسائل پر قابض ہے، سیاست دان، اشرافیہ، اور اسٹیبلشمنٹ کا تکون جو باری باری حکومت کرتے ہیں، آج مادر پدر آزاد ڈالر اور تیل کی قیمتوں پر شور کرنے سے بہتر ہے ہم اس معاشی دلدل میں پھنسنے کے وجوہات ڈونڈھ لیں۔  یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ  جب 2016 میں پاکستان نے IMF پروگرام کو مکمل کرکے خدا حافظ کہ دیا اور اس وقت کے وزیراعظم نے قوم کو خوشخبری دی تھی کہ مزید IMF قرضوں کی ضرورت  نہیں ہوگی، تو ملک کو معاشی بدحالی کی دلدل میں کس نے دھکیلا تھا۔  مشرف دور کے دس سال نے پاکستان کو کتنا نقصان پہنچایا۔ اگر یہ سب نہ ہوتا تو آج  پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو چکا ہوتا۔ نگران حکومت سے پہلے پی ڈی ایم  کی حکومت  نے جو معاہدے کئے ہیں، وہ ملک کو غلامی  میں دینے اور معاشی نظام کو تباہ  کرنے والا ہے۔ ایک معاشی طور پر مستحکم ملک کیسے چند سالوں میں اس حال پر پہنچا کہ IMF شرائط کی وجہ سے اتنا بےبس ہے کہ مجبورا ڈالر اور پٹرول کی قیمت کو آزاد چھوڑ دیا ہے؟ سادہ سا جواب ہے کہ “مقتدر حلقوں کے درمیان کرسی کی جنگ کی جاری ہے۔ ایک کو گرا کو دوسرے کو  اٹھانے کا یہ کھیل  جانے کب تک جاری رہے گا۔

پاکستان دنیا کی نویں بڑی افرادی قوت ہے۔دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے ۔ ہر سال اس کی افرادی قوت میں ایک بڑا اضافہ ہوتا ہے۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای)کی رپورٹ ملک بھر میں بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کی ایک سنگین تصویر دکھاتی ہے۔ ملک میں اس وقت 24 فیصد  سے زیادہ تعلیم یافتہ افراد بے روزگار ہیں۔ملک سے ذہین  افراد بیرون ملک جار ہے ہیں۔ روزگاری کی شرح 33 فیصد تک پہنچ گئی ہے ۔ملک  میں 40 فیصد تعلیم یافتہ خواتین بے روزگار ہیں۔یہاں ‘تعلیم یافتہ’ کی اصطلاح سے مراد وہ افراد ہیں جنہوں نے انڈر گریجویٹ یا گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ہے۔ یہاں محکمہ  تعلیم کے استاد سے لے کر ایک چپراسی کی نوکری کے لیے لاکھوں افراد درخواست دیتے ہیں۔ ہائی کورٹ کے چپراسی کی نوکری کیلئے ایم فل ڈگری یافتہ سمیت 15 لاکھ افراد نے درخواست دی تھی۔ یہ سب ورلڈ یکارڈ  بھی ہم نے اس دور میں قائم کیئے ہیں۔ بے روزگاری پر کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔حکومتی سطح پر کوئی تحقیق نہیں کی جا رہی ۔اس طرح کے تمام مطالعے بیرون ملک سے کیے  جاتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار گمراہ کن بھی ہوسکتے ہیں۔ لیکن کیا اس پر ہم نے کچھ سوچ بچار کیا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نیپرا سمیت  تما م اہم بل جو پارلیمنٹ سے منظور کرائے گئے ہیں۔ وہ باہر بیٹھے افراد نے بنائے ہیں۔

ملک میں ریسرچ کے لیے بڑی بڑی عمارتیں بنائی گئی ہیں لیکن ان میں کوئی تحقیق نہیں کی جارہی۔ٹحقیق ہماری جامعات اور اداروں سے رخصت ہوگئی ہے۔ پاکستان کو تبدیل کرنے کے لیے  بہت محنت  اور مخلص قیادت کی ضرورت ہے،  جن   لوگوں نے ملک کو لوٹا ہے۔  عوام کو  ان سیاست دانوں کا محاسبہ کرنا چاہیئے، ان پارٹیوں کو منتخب کرنا چاہیئے، جو ملک کو ایک واضح پروگرام کے تحت  خوشحالی  کی طرف لے جاسکیں۔

حصہ
mm
عطا محمد تبسم سینئر صحافی، کالم نگار ہیں،وہ خرم بدر کے قلمی نام سے بھی معروف ہیں اور ان کئی کتابیں، قاضی حسین احمد انقلابی قیادت، محبتوں کا سفر رپوژ تاژ کاروان دعوت و محبت،سید مودودی کی سیاسی زندگی، پروفیسر غفور احمد،محبتوں کا سفیر سراج الحق عوام میں پذیرائی حاصل کرچکی ہیں، مارکیٹنگ کے موضوع پر ان کی تین کتابیں فروخت کا فن، مارکیٹنگ کے گر، اور مارکیٹنگ کے 60 نکات اور 60 منٹ ان کے ان کے اصل نام سے شائع ہوچکی ہیں۔وہ ایک ٹی وی چینل کی ادارت کی ٹیم کا حصہ ہیں۔جنگ، جسارت، نوائے وقت ایکسپریس، جہاں پاکستان میں ان کے کالم اور مضامین شائع ہوتے ہیں۔ وہ ایک اچھے بلاگر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ بیمہ کار میگزین اور بیمہ کار ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔