کائنات کا سب سے پہلا اور خوبصورت رشتہ ! نکاح کا رشتہ ہے۔ یہ وہ رشتہ ہے جو جنت میں بنا اور جنت تک جائے گا۔ سبھی رشتوں کی بنیاد، خاندان اور برادریوں کی وجہ وجود یہی رشتہ ہے۔
جسے بننے میں تو مدتیں لگ جاتی ہیں لیکن بکھرتے ہوئے لمحوں کا کھیل ہے۔ اور جب تک احساس سود و زیاں ہوتا ہے تب پچھتاوے کے مٹھی میں کچھ نہیں رہ جاتا۔
ویسے تو شیطان بابا آدم اور اماں حوا کے دور سے اس رشتے کو خراب کرنے کے در پہ ہے لیکن دور حاضر میں شاید اس نے باقی سارے گناہ انسانوں کے ذمے لگا کر، طلاق اور تفریق کا مورچہ سنبھال لیا ہے، گھر ٹوٹنے کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہےکہ ہم اس رشتے کی گہرائی اور اہمیت کی سمجھ ہی اپنی اولادوں کو نہیں دیتے، ایک کاروبار چلانے کے لیے تو ہم جمع تفریق سیکھنے پر مدتیں لگا دیتے ہیں جبکہ اس رشتے کو نبھانے کے ابتدائی گر بھی نہ لڑکے کو دیتے ہیں نہ لڑکی کو۔
اللہ نے بیویوں کو کھیتیوں سے تشبیہ دے کر یہ بتایا کہ نکاح کوئی وقتی لذت یا تفریح گاہ نہیں جہاں آپ جائیں نظارے دیکھیں اور لوٹ آئیں یہ تو مشقت کا رشتہ ہے، ذمہ داریوں کا رشتہ ہے، خالی زمین کو اپنی کوشش سے لہلہاتا کھیت بنا دینا یقیناً محنت طلب کام ہے۔
نکاح وہ معاہدہ اور بندھن ہے جس میں ایک عورت اپنی عزت، اپنی وفا اور اپنی خدمات جب کسی مرد کے نام لکھتی ہے تو بدلے میں اپنی عزت کی حفاظت، اپنی وفا کی قدر اور اپنی خدمات کے صلے میں اپنی ضروریات و خواہشات کی تکمیل چاہتی ہے۔
یہ حقوق و فرائض کا رشتہ ہےجو کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر چلتا ہے۔ مرد کو قوام بنا کر ایک درجہ اوپر رکھا کیونکہ مشقت اس کے کھاتے میں ڈالی گئی۔مرد قوام ہےیعنی کسان کی طرح محنتی و باہمت اور نوازنے والا، عورت زمین ہے جو اتنا ہی لہلہاتی ہے جتنا کسان محنت کش ہوتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ نکاح کے معاہدے میں فریقین ایک دوسرے کو خوبیوں، خامیوں سمیت قبول کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ بنیادی ذمہ داریوں سے ہی منہ پھیر کر اپنی خامی کہنا شروع کر دیں۔ عورت اگر گھر سنبھالنے کی ذمہ دار ہے تو مرد گھر چلانے کا ذمہ دار، کوئی ایک بھی اپنے فرض سے کوتاہی برتے گا تو گھروندہ ٹوٹے گا۔
شادی کے وقت جہاں ہم خاندان، برادری، کفو، امارت، رتبہ اور حسن تلاش کرتے ہیں وہیں اگر اپنے بیٹے یا بیٹی کو اس رشتے کا حسن، اہمیت اور نبھانے کے گر بھی بتانے لگ جائیں تو یقیناً صورتحال اتنی بری نہ رہے جتنی آج کل ہے۔
یہ رشتہ کوئی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ اس میں جھگڑے بھی ہوں گے اور ناانصافیاں بھی۔ ایسے میں خاندان کے منجھے ہوئے عقلمند افراد بیٹھ کر معاملے کو دیکھ کر بہتر فیصلہ کریں گے۔ لیکن افسوس ہمارے اندر ایسے بزرگ ہی نایاب ہو گئے ہیں۔ جبکہ بزرگ نا انصاف اور اولادیں منہ زور ہو گئی ہیں نتیجتاً گھروندے ٹوٹ رہے ہیں، ہمیشہ کے لیےنہ جڑنے کے لیے۔
اگر آپ کا تعلق بھی کسی ایسے ہی گھروندے سے ہے جو ٹوٹا چاہتا ہےتو خدارا رکیے اور سوچیے اپنی زبان اور دل کو کچھ دیر کے لیے دماغ کی زیر نگرانی کیجیئےاپنے مسائل اور وسائل کا جائزہ لیجیئے پھر مسائل پر قابو پانے اور وسائل کو بڑھانے پر غور کیجئیے مصالحت کی راہ نکالیے لگے پیچے کو کھولنے کے لیے ڈور کو ڈھیل دیجئیے، ذرا سی کھینچا تانی ہمیشہ کا پچھتاوا نہ بن جائے۔ اللہ کے حضور جھک کر صبر و برداشت کی ڈوز لیجیئے۔ حکمت و دانائی طلب کیجیئے۔
یاد رکھیے آپ دونوں کی جدائی رب کو اداس اور شیطان کو خوش کردے گی سو اس رشتے کو تادم مرگ نبھانے کی ہمت مانگتے رہیےاور اپنے ٹوٹتے گھروندے کو بچا لیجیئے۔
آخر میں دعاہے کہ الہٰی ہماری نسلوں کو سمجھ اور شعور عطا کر دیجئے۔ ہمارے خاندانوں کو بکھرنے سے بچا لیجیئے۔ آمین۔