حالیہ برسوں کے دوران چین نے سائنس و ٹیکنالوجی میں بے شمار کمالات دکھائے ہیں اور تکنیکی اعتبار سے آپ کسی بھی پیش رفت کا تذکرہ کریں،چین آپ کو صف اول میں نظر آئے گا. اس کی ایک بڑی وجہ ملک میں ٹیکنالوجی دوست رویے ہیں جن کی بنیاد پر حالیہ برسوں میں چین نے تکنیکی شعبے میں بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کو ہمیشہ فوقیت دیتے ہوئیآج چین اختراعات کی نمایاں ترین اقوام اور عالمی اختراعی نظام کا اہم ترین حصہ بن چکا ہے۔
سائنس و ٹیکنالوجی میں چین کی تیز رفتار ترقی کے پیچھے جو قوت کارفرما ہے وہ تحقیق اور ترقی (آر اینڈ ڈی) پر مسلسل توجہ دینا ہے، جس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک نے 2022 میں آر اینڈ ڈی کے لیے 418.2 بلین امریکی ڈالر سے زائد صرف کیے ہیں، جو سال بہ سال 10.1 فیصد اضافہ ہے۔آر اینڈ ڈی پر چین کے مجموعی اخراجات گزشتہ سال اس کی مجموعی گھریلو پیداوار یعنیٰ جی ڈی پی کا 2.54 فیصد رہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 0.11 فیصد زیادہ ہیں۔انٹرپرائزز کے آر اینڈ ڈی اخراجات نے ملک کی آر اینڈ ڈی ترقی میں 84 فیصد حصہ ڈالا، جو ایک سال پہلے کے مقابلے میں 4.6 فیصد زیادہ ہے۔بنیادی تحقیق میں سرمایہ کاری میں گزشتہ سال اضافہ جاری رہا، جو 200 بلین یوآن سے تجاوز کر گیا اور کل آر اینڈ ڈی اخراجات کا 6.57 فیصد ہے۔
وسیع تناظر میں،حالیہ برسوں میں چین نے آر اینڈ ڈی میں اپنی سرمایہ کاری کے حوالے سے کئی اہم سنگ میل عبور کیے ہیں۔ ملک نے سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئیمستقبل کے لئے ایک جرات مندانہ نقطہ نظر بھی پیش کیا ہے۔چین کے نزدیک ملک کی آئندہ ترقی کے لیے آر اینڈ ڈی کا فروغ، انوویشن کی بنیادی قوت محرکہ ہے اور پالیسی سازی میں جدت طرازی کو قومی ترقیاتی حکمت عملی
کے مرکز میں رکھنا ہوگا۔چین کی اعلیٰ قیادت نے اس بات کا اعادہ بھی کیا ہے کہ ملک کو تکنیکی خود انحصاری کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے اور سائنسی اور تکنیکی کامیابیوں کو پیداواری صلاحیت میں تبدیل کرنے میں تیزی لانی چاہئے۔ اس کی عکاسی چینی حکومت کی جانب سے آر اینڈ ڈی میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ ملک کے آر اینڈ ڈی نظام کی کارکردگی کو بڑھانے کی کوششوں سے ہوتی ہے۔
آج چین، امریکہ کے بعد دنیا میں آر اینڈ ڈی پر خرچ کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک کہلاتا ہے۔ نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کی جانب سے شائع کردہ اسٹیٹ آف یو ایس سائنس اینڈ انجینئرنگ 2022 کے مطابق، امریکہ اور چین کا آر اینڈ ڈی سے متعلق عالمی اخراجات میں شیئر بالترتیب 27 فیصد اور 22 فیصد ہے جبکہ دیگر ممالک میں جاپان 7 فیصد، جرمنی 6 فیصد اور جنوبی کوریا 4 فیصد کے ساتھ شامل ہیں۔ چین کی جانب سے آر اینڈ ڈی میں سرمایہ کاری کے نمایاں ثمرات بھی برآمد ہوئے ہیں۔ 2022 میں چین ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کے گلوبل انوویشن انڈیکس میں ایک درجہ ترقی کے ساتھ 11 ویں نمبر پر آ چکا ہے۔
چین یہ کارنامہ سر انجام دینے والا واحد ترقی پزیر ملک ہے جبکہ بقیہ ٹاپ فہرست میں ترقی یافتہ ممالک کا غلبہ ہے۔بنیادی تحقیق اور تزویراتی سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی میں چین کی کامیابیوں کو بیان کرنے کے لیے حالیہ خلائی مشنز، گہرے سمندر کی کھوج اور کوانٹم کمپیوٹنگ کی مثالیں دنیا کے سامنے ہیں۔سائنس و ٹیکنالوجی کے انتظامی نظام میں اصلاحات گزشتہ دہائی میں چین کے لیے ایک اہم کام رہا ہے۔ اس ضمن میں چین نے سائنس ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے کاروباری اداروں کی طاقت کو بھی بھرپور طریقے سے استعمال کرنے میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔قابل زکر امر یہ ہے کہ آر اینڈ ڈی کے حوالے سے مجموعی سرمایہ کاری کا تقریباً تین چوتھائی کاروباری اداروں نے فراہم کیا ہے۔ چین نے یہ عزم بھی ظاہر کیا ہے کہ وہ مقامی سطح پر حکام کی حوصلہ افزائی جاری رکھے گا کہ وہ تحقیق و ترقی کے اخراجات میں اضافہ کریں اور سرمائے کے استعمال کی کارکردگی کو بہتر بنائیں، جس سے آئندہ عرصے میں نہ صرف چین بلکہ دیگر دنیا کے عوام بھی مستفید ہو سکیں گے۔