ہمارے گھروں میں جب کوئی باہر سے عورتیں آتیں، امی بیٹوں کو کہتی ہیں، تم اُدھر جا کر بیٹھو یہاں خواتین بیٹھیں گی، جس کمرے میں بہنیں سورہی ہوں، بھائیوں کو اجازت نہیں ہوتی تھی کہ بےدھڑک وہاں گھس جائیں، اگر راستے میں کسی عورت کو مدد چاہیئے تو ماں کہتی کہ بیٹا جاؤ، “تمہاری ماں جیسی ہے اس کی مدد کرو” بیٹا ماں ہی سمجھ کر ایسا کرتاکسی کی جوان بیٹی کو کوئی کام ہوتا تو امی یوں کہتیں “جاؤ تمہاری بہن جیسی ہے، فلاں کام کر دو یا وہاں چھوڑ آؤ تو اس کے دل میں بیٹھ جاتا کہ یہ بھی میری بہن جیسی ہے” بہنوں کی سہیلیاں گھر آتیں تو ان کا بہنوں ہی کی طرح احترام کیا جاتا منگنیاں ہوجاتی تھیں بیٹوں کو پتا تک نہ ہوتا تھا، شادی ماں کی پسند سے کر تے اور مرتے دم تک نبھاتے، خوش رہتے کبھی ڈپریشن نہ ہوتا تھا، یہ تربیت ہوتی تھی، یہ ہمارا معاشرہ تھا جو ماؤں نے تشکیل دیا تھااب تو لگتا ہے نئی نسلوں کی مائیں روٹی سالن میں ہی کھو گئی ہیں، ٹی وی ڈرامہ، مارننگ شوز دیکھنے میں مصروف رہتی ہیں۔ وہ تربیت کرنا بھول گئی ہیں، تین فطری قوانین جو کڑوے لیکن حق ہیں۔
پہلا قانون فطرت: اگر کھیت میں” دانہ” نہ ڈالا جائے تو قدرت اسے “گھاس پھوس” سے بھر دیتی ہے، اسی طرح اگر” دماغ” کو” اچھی فکروں” سے نہ بھرا جائے تو “کج فکری” اسے اپنا مسکن بنا لیتی ہے۔ یعنی اس میں صرف “الٹے سیدھے “خیالات آتے ہیں اور وہ “شیطان کا گھر” بن جاتا ہے۔
دوسرا قانون فطرت: جس کے پاس “جو کچھ” ہوتا ہے وہ” وہی کچھ” بانٹتا ہے، خوش مزاج “خوشیاں ” غمزدہ “غم” ۔ عالم “علم” ۔ دیندار “دین”، خوف زدہ “خوف” بانٹتا ہے۔
تیسرا قانون فطرت: آپ کو زندگی میں جو کچھ بھی حاصل ہو اسے “ہضم” کرنا سیکھیں، اس لئے کہ کھانا ہضم نہ ہونے پر” بیماریاں” پیدا ہوتی ہیں۔ مال ودولت ہضم نہ ہونے کی صورت میں” ریاکاری” بڑھتی ہے۔ بات ہضم نہ ہونے پر “چغلی” اور “غیبت” بڑھتی ہے۔ تعریف ہضم نہ ہونے کی صورت میں “غرور” میں اضافہ ہوتا ہے۔ مذمت کے ہضم نہ ہونے کی وجہ سے “دشمنی” بڑھتی ہے، غم ہضم نہ ہونے کی صورت میں “مایوسی” بڑھتی ہے۔ اقتدار اور طاقت ہضم نہ ہونے کی صورت میں “خطرات” میں اضافہ ہوتا ہے۔ اپنی زندگی کو آسان بنائیں اور ایک” با مقصد” اور “با اخلاق” زندگی گزاریں، لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کریں خوش رہیں۔ خوشیاں بانٹیں، بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں اور اللہ کی مخلوق کی بے لوث خدمت کریں۔