داعی اعظم ﷺ اور وطن سے محبت

پیارے آقا نبی مہربان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی اور اماں خدیجہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ورقہ بن نوفل کو ماجرا سنایا تو مختلف روایات کے مطابق ورقہ نے کئی پیشنگوئیاں کیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی اہل بیت اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ اجمعین پر ڈھائے جانے والے مظالم کا ذکر تھا لیکن کب ورقہ بن نوفل نے یہ کہا کہ،،،،،،کاش میں اس وقت زندہ رہوں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں سے نکال دے گی تو نبی محترم علی اللہ علیہ وسلم نے بے اختیار فرمایا،،،کیا یہ مجھے یہاں سے نکال دیں گے۔

اس واقعہ کو امام سہلی رحمہ اللہ اس طرح فرماتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ وطن کی محبت اور اس سے دوری بہت اہم ہے جیسا کہ ورقہ بن نوفل کی اتنی خطرناک پیشنگوئیوں یعنی آپ پر مظالم کئے جائیں گے حتی کہ بچے بوڑھے بھی اس کی زد میں آئیں گے ان تمام پر نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہ کہا لیکن جو نہی ورقہ نے مکہ سے نکالنے والی بات کی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم برجستہ پکار اٹھے یہ اس بات کی غماذی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے وطن مکہ سے کتنی محبت تھی۔

اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی جو سب سے بڑی قربانی شمار کی گئ وہ تبارک وطن تھا اصحاب کرام کے دلوں میں یہ واقعہ کسطرح تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی دور خلافت میں اسلامی سنہ کا آغاز اور اسکے بام کو معاملہ آیا تو مشورہ ہوا کہ اسے کس نام سے موسوم کیا جائے یہ بہت ہی اہم معاملہ تھا کیونکہ سنہ کو جس بھی نام سے موسوم کیا جاتا تو ہر ہر لمحہ سال کا نام ساتھ لکھا جانا تھا جیسا کہ سنہ عیسوی ہم ہر ہر تاریخ میں یاد رکھتے ہیں

اس تناظر میں غور و خوص کیا گیا کہ نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم اور تاریخ اسلامی میں کون سا ایسا واقعہ ہے جس کو ہمیشہ کے لئے تاریخ کا حصہ بنا دیا جائے، اب دیکھئے کہ تاریخ اسلامی میں اس وقت نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ان کا دنیا سے پردہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت جیسے محترم و مکرم واقعات موجود تھے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ حضرت سہم بن سعدی رضی اللہ عنہ کے مطابق السلامی سنہ کو ہجرت مدینہ سے موسوم کیا گیا-

اس سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ترک وطن کتنی اہمیت کا حامل ہے کہ اسلامی سنہ کو اس سے موسوم کیا گیا جبکہ وہ وطن جہاں نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم اہل بیت اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین پر کیسے کیسے مظالم ڈھائے گی- بے شمار واقعات تاریخ کا حصہ ہیں جن سے وہاں رونما ہونے والے مظالم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور دوسرے صحابہ کا تو کیا ہی کہنا جبکہ حضرت بلال جنہوں نے مکہ میں غلامانہ زندگی گزاری وہ زندگی جس میں انہیں شائد انسان بھی نہیں سمجھا جاتا تھا ان کا بھی یہ حال تھا کہ جب مدینہ تشریف لائے تو بخار میں مبتلا ہوگئے شدت تکلیف میں آپ رضی اللہ عنہ فرماتے،،،،،،،کاش مجھے یہ معلوم ہوجاتا کہ میں ایک رات مکہ کی وادی میں گزار سکوں گا میرے اردگرد خوشبودار گھاس ہوگی اور کیا ایک دن بھی ایسا مل سکے گا کہ میں مقام حجلی پر جاؤں اور طفیل کی پہاڑیوں کو ایک نظر دیکھ سکوں گا۔

اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی !  اے اللہ مدینہ کی محبت ہمارے دلوں میں اتنی کردے جتنی مکہ کی تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ یہاں کی آب و ہوا کو صحت بخش بنا ہمارے لئے یہاں کے ساعہ اور مد یعنی اناج ناپنے والے پیمانے میں برکت عطا فرما اور یہاں کے بخار کو مقام جنگ میں بھیج دے۔ صحیح بخاری 5654

امام ابن بال فرماتے ہیں،،،اللہ تعالی نے لوگوں کو وطن کی محبت اور اس کے ساتھ اشتیاق پر پیدا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وطن سے محبت کی اس میں بہترین اسوہ ہے۔

مکہ سے محبت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے کہ،،،،کتنا پاکیزہ تر ہے تو اور تو کتنا محبوب ہے میرے قوم نے مجھے تجھ سے نہ نکالا ہوتا تو میں تیرے علاوہ کہیں اور نہ رہتا،ال ترمذی 3926۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ سے بھی بہت محبت تھی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس تشریف لاتے اور مدینہ نظر آنے لگتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری کو تیز کردیا کرتے تھے،،بخاری 1802

مندرجہ بالا احادیث کی روشنی میں جو حالات و واقعات سامنے آتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے لئے وطن کس قدر اہمیت کا حامل تھا۔

اس اہم ترین معاملے کے متعلق مختلف ائمہ کرام نے مختلف آراء دی ہیں کچھ کا خیال ہے کہ ان تمام احادیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے محبت محض کعبہ کا مکہ میں ہونا ہے جبکہ ایک دوسرا مکتبہ فکر مدینہ والی حدیث کی بنیاد پر نبی کریم کی محبت کو وطن سے تشبیح دیتے ہیں اور اس کے لئے ایل حدیث پیش کرتے ہیں جو کہ صحیح احادیث میں شامل نہیں۔

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر وطن میں اسلامی حکمت ہو یا وطن اسلام کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ہو تو اس کی محبت ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ملتی ہے اور اگر ہم اس وطن کے لئے مخلص ہوں اس میں اسلام کی مطابق اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہوں اور وہاں واقعتا اسلامی حکمت ہو تو اس کے لئے ہماری محبت جائز ہے پھر ہمیں اس وطن کی ترقی کے لئے اس کی خوشنودی کے لئے اس کی آسودگی کے لئے اس کی آموز حالی کے لئے اس کے نام کے لیے اس کی شہرت کے لئے کام کرنا ہمارا اولین فرض ہونا چاہئے،اور اسی طرح وطن عزیز کے خلاف اٹھنے والے ناپاک قدموں کو روکنے اس کے خلاف کام کرنے والے لوگوں کو نیست و نابود کرنے والے اقدامات عین اسلامی ہوں گے۔

تو آئیے ہم بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والم کی سنت کے مطابق اپنے وطن عزیز کی ترقی اس کی سالمیت اس کی آبیاری اس کی خوشحالی اور اس کو صبیح معنوں میں اسلام کا قلعہ بنانے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لاتے ہوئے دام درم سخن اپنے اپنی محاز پر کام کریں تاکہ ہماری دنیا بھی اور آخرت بھی سنور سکے۔

حصہ