ملک کی معیشت کے ساتھ ہمیشہ سے ہر کوئی سیاست کرتے ہوئے نظر آیا، کبھی سیاستدان نے کی، تو کبھی تاجروں نے، کبھی دشمنوں نے اپنے جاسوسوں کے ذریعے ہماری معیشت کو تباہ کرنے کے لئے وہ کام کیا جو وہ کبھی سرحدوں پر نہ کرسکے، دشمنوں نے ہمارے ملک کو اندرونی طور پر نقصان پہنچانے کے لئے سوشل میڈیا اور چند نادان سیاستدانوں کے ذریعے ہمارے عوام کے دلوں میں زہر بھرے اور اُن کے دل سے حب الوطنی اور انسانیت کا خاتمہ کیا، معیشت کو تباہ کرنے کے لئے سب سے پہلا کام عوام کو ایک دوسرے کے خلاف کرنا اور اپنے ہی ملک کے بارے میں غلط افواہیں پھیلانا ہوتا ہے جو ملک کی معیشت کو نقصان پہنچاتا ہے۔
جب ہم اپنے ہی ملک کی برائی کرتے ہیں تو اُس سے غیر ملکی سرمایہ کار ہمارے ملک میں سرمایہ کاری نہیں کرتے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ جس ملک کے اپنے لوگ اپنے ہی ملک کو برا کہہ رہے ہیں اُس ملک میں اگر ہم سرمایہ کاری کریں گے تو ہمیں نقصان پہنچ سکتا ہے، ہم نے ہمیشہ معیشت پر سیاست ہوتے ہوئے دیکھا ہے، کچھ امیر لوگ اپنے مفاد کی خاطر سیاست دانوں پر پیسے لگاتے ہیں، تاکہ اُن کے مفاد میں قانون بنائے جائیں اور اُن کے مفاد کے لئے وہ سیاست دان کام کریں، یہی وجہ ہے کہ آج تک پاکستان میں اہم کاروباری سیکٹرز میں عام لوگ داخل نہیں ہوسکے۔
کچھ مخصوص لوگ ہیں جو پچھلے کئی سالوں سے چینی کا کاروبار، سیمنٹ کا کاروبار، بجلی کا شعبہ، ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے، گاڑیوں کا شعبہ، دوائیوں کا کام اور ایسے کئی اہم شعبوں میں پائے جاتے ہیں، جب حکومت ان سے قیمتیں کم کرانے کو کہتی ہے تو وہ حکومت کو یہ کہتے ہوئے بلیک کرتے ہیں کہ اگر ہم ادارے بند کردیں تو آپ کے ملک کو مشکلات درپیش آئیں گی اور لوگ بیروزگار ہوجائیں گے، یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات ہم جو چیزیں درآمد کرتے ہیں وہ چیزیں ہماری خود ساختہ بنائی ہوئی چیزوں سے سستی ہوتی ہیں، مگر پھر بھی ہم امپورٹ نہیں کرتے اور ہمارے عوام کو پاکستان کی اُن کمپنیوں سے چیزیں خریدنی پڑتی ہیں جنہوں نے اپنے کاٹل بنائے ہیں اور اپنی خود ساختہ قیمتیں طے کی ہوئی ہوتی ہیں۔
معیشت کے ساتھ سیاست کرنے کے لئے میڈیا کو بھی ساتھ ملایا جاتا ہے، میڈیا میں مختلف خبریں چلتی ہیں جوکہ اُن پرائیویٹ سیکٹرز کو سپورٹ کرتی ہیں جو میڈیا کو بھاری رقم میں مختلف ذرائع سے پیش کی جاتی ہیں، ایک مثال کے طور پر کے الیکٹرک جب حکومت کے پاس تھی ہر روز حکومت پر تنقید ہوتی تھی اور کہا جاتا تھا کہ بجلی مہنگی ہے اور اُس زمانے 30فیصد لائن لاسز ہوتی تھی، دیکھا جائے تو آج 15فیصد اسی محکمہ کو لائن لاسز کا سامنا ہے، جبکہ وہ محکمہ آج پرائیویٹائز ہوچکا ہے مگر اس پرائیویٹائز محکمے میں 180فیصد بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔
اگر ہم سیمنٹ کی بات کریں تو پاکستان میں سیمنٹ کے 20کارخانے ہیں جوکہ پورے پاکستان کو سیمنٹ فروخت کررہے ہیں، سیمنٹ کی بوری 120روپے سے آج 1200کی ہوچکی ہے، مگر نہ عوام اس کی قیمت کو روک سکی نہ حکومت اس معاملے میں کچھ کرسکی، اسی طرح کئی شعبے ہیں کس کس کی نشاندہی کریں؟ سونے پر سہاگا جب عالمی اداروں کے پاس پاکستان گیا تو اُن عالمی اداروں نے بھی پاکستان کے ساتھ سیاست کی، آئی ایم ایف وہ ادارہ ہے جو غریب ملکوں کی مدد کے لئے بنایا گیا اور اس ادارے میں ایسے لوگ رکھے گئے جو غریب ملکوں کی معیشت کو بہتر کریں، آئی ایم ایف کے بتائے ہوئے راستے پر پاکستان 7سال سے چل رہا ہے، اُنہی کی بتائی ہوئی پالیسیز کی وجہ سے ڈالر 110روپے سے آج 330 روپے تک پہنچ چکا ہے اور پیٹرول کی قیمت 80 روپے سے 300سے تجاوز کرچکی ہے۔
آئی ایم ایف کی پالیسیز کے مطابق ہم نے شرح سود کو بھی ان چند سالوں میں بڑھتے ہوئے دیکھا ہے جو پانچ اعشاریہ سود سے 20اعشاریہ پرپہنچ چکا ہے، اضافی قیمتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو جو پالیسیز دی تھیں وہ صحیح نہیں تھیں، مگر آج بھی ہم یہ بات آئی ایم ایف سے نہیں کہتے، اب دنیا کو یہ سوچنا ہوگا کہ کیا آئی ایم ایف کی شرائط ملکوں کو بہتر کرتی ہے یا نہیں؟ کیونکہ پاکستان نے ہمیشہ سے آئی ایم ایف کی شرائط پر چل کر پاکستانی عوام کے لئے مہنگائی کا طوفان کھڑا کیا ہے۔
اب اگر کوئی ادارہ یا حکومت ان کے خلاف آواز اُٹھاتی ہے تو آئی ایم ایف اور دیگر بیرونی طاقتیں ہمارے ادارے اور حکمرانوں کے خلاف سوشل پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ زیادتی اُن کے ادارے کررہے ہیں، یاد رکھئے گا کہ پاکستان کے ادارے اور پاکستان کی حکومت جب پاکستان کے حق میں فیصلے کرتی ہے تو ہمارے دشمن ممالک پاکستانیوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے غلط خبریں پھیلا کر ملک میں انتشار کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پاکستانیوں کے دل میں شک و شبہات پیدا کرتے ہیں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں معیشت بہتر ہو تو پھر اپنے ملک اور اداروں کو برا نہ کہیں اور ملک کی بہتری کو مد نظر رکھتے ہوئے کام کریں۔