بلاشبہ علم عزت و شرافت اور دارین کی سعادت کا بہترین ذریعہ ہےیہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے ظہور کے اولِ دن سے ہی پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر ”اقرأ“ کے حکم کے ذریعہ جہالت کی تاریکیوں میں علم کی عظمت واہمیت کو اجاگر کیا یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کو مجموعی طور پر دین سے روشناس کرانے، تہذیب وثقافت سے بہرہ ور کرنے اور خصائل ِ جمیلہ سے مزین کرنے میں اس قوم کی خواتین کا اہم اساسی کردار ہوتا ہے ؛ ماں کی گود قوم کے نونہالوں کااولین مدرسہ ہے؛ اس لیے شروع ہی سے اسلام نے جس طرح مردوں کو تعلیم کی آزادی دی ہے؛ ، بالکل اسی طرح دین حنیف خواتین کے بھی تمدنی، معاشرتی اور ملکی حقوق کے ساتھ ساتھ تعلیمی حقوق کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے؛ بلکہ عملی سطح پر انھیں ادا کرنے کا بھی حد سے زیادہ اہتمام کرتا ہےاور مردو زن کی تعلیم وتربت کے حدودوقیود بھی مقرر کرتا ہے اسلامی شریعت نے مردوزن کے اختلا ط سے منع کیا اورنہایت سختی سے منع کیا ہے،ارشادباری تعالی ہے:
﴿وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ﴾ (الاحزاب۳۳/۳۳)
‘‘اوراپنے گھروں میں ٹھہری رہو اورجس طرح (پہلے) جاہلیت (کے دنوں) میں اظہار تجمل کرتی تھیں ،اس طرح زینت نہ دکھاو۔’’
اورفرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚذَٰلِكَأَدْنَىٰأَنيُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗوَكَانَاللَّـهُغَفُورًارَّحِيمًا﴾ (الاحزاب۳۳/۵۹)
‘‘اے نبی!اپنی بیویوں اوربیٹیوں اورمسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو) اپنے (چہروں) پر چادرلٹکا (کرگھونگھٹ نکال) لیا کریں یہ امران کے لئے موجب شناخت (وامتیاز) ہوگا توکوئی ان کو ایذا نہ دے گااوراللہ بخشنے والا مہربان ہے۔’’
وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْــٴَـلُوْهُنَّمِنْوَّرَآءِحِجَابٍؕ-ذٰلِكُمْاَطْهَرُلِقُلُوْبِكُمْوَقُلُوْبِهِنَّؕ
اور جب تم ان سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو۔ تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کیلئے یہ زیادہ پاکیزگی کی بات ہے
فاتَّخَذَتْ مِنْ دُونِهِمْ حِجَابًا پھر اس نے ان کی طرف سے ایک پردہ بنالیا
حضرت مریم نے وہاں موجود مردوں سے حجاب کیا-
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَـٰتِيَغْضُضْنَمِنْأَبْصَـٰرِهِنَّوَيَحْفَظْنَفُرُوجَهُنَّ
‘اورمومن عورتوں سےبھی کہہ دوکہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھاکریں اوراپنی شرم گاہوں (عصمتوں) کی حفاظت کیاکریں اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی عورتوں کی تعلیم کا اہتمام فرماتے تھے اور ان کی خواہش پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باضابطہ ان کے لیے ایک دن مقرر کردیا تھا ۔حضرت اسماء بنت یزید بن السکن انصاریہ بڑی متدین اور سمجھدار خاتون تھیں، انھیں ایک دفعہ عورتوں نے اپنی طرف سے ترجمان بناکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کریں کہ : ”اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مردو عورت ہر دو کی رہ نمائی کے لیے مبعوث فرمایا ہے؛ چنانچہ ہم آپ پر ایمان لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی، مگر ہم عورتیں پردہ نشیں ہیں، گھروں میں رہنا ہوتا ہے، ہم حتی الواسع اپنے مردوں کی ہر خواہش پوری کرتی ہیں، ان کی اولاد کی پرورش وپرداخت ہمارے ذمے ہوتی ہے، ادھر مرد مسجدوں میں باجماعت نماز ادا کرتے ہیں، جہاد میں شریک ہوتے ہیں، جس کی بنا پر انھیں بہت زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے؛ لیکن ہم عورتیں ان کے زمانہٴ غیبوبت میں ان کے مال واولاد کی حفاظت کرتی ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ان صورتوں میں ہم بھی اجر وثواب میں مردوں کی ہمسر ہوسکتی ہیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء کی بصیرت افروز تقریر سن کر صحابہ کی طرف رخ کیا اور ان سے پوچھا: ”اسماء سے پہلے تم نے دین کے متعلق کسی عورت سے اتنا عمدہ سوال سنا ہے؟“ صحابہ نے نفی میں جواب دیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء سے فرمایا کہ: ”جاؤ اور ان عورتوں سے کہہ دو کہ کسی عورت کا اپنے شوہر سے حسن سلوک اس کی رضا کی جستجو اور اس کی مرضی کے مطابق عمل ، ان تمام نیکیوں کے برابرعمل ہے(شعب الایمان از امام بیہقی 8743) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ( سنن ابن ماجہ )
پوری دنیا جانتی ہے اسماء الرجال کی کتابوں جہاں مردوں کے علمی کمالات کا تذکرہ ہے وہاں مسلم خواتین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ احاطہ کرنا مشکل ہے ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی عورتوں کی تعلیم کا اہتمام فرماتے تھے اور ان کی خواہش پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باضابطہ ان کے لیے ایک دن مقرر کیا تھا ۔ایک صحابیہ حضرت شفاء بنت عدویہ تعلیم یافتہ خاتون تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ: ”تم نے جس طرح حفصہ کو ”نملہ“ (پھوڑے) کا رقیہ سکھایا ہے اسی طرح لکھنا بھی سکھادو۔
تعلیم وتعلم کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کا غایت درجہ اہتمام فرماتے کہ لڑکوں اور لڑکیوں میں اختلاط کی کیفیت پیدا نہ ہونے پائے؛ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں اور عورتوں کو خلط ملط دیکھا، تو عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ”پیچھے ہٹ
جاؤ! تمہارا بیچ راستے پر چلنا مناسب نہیں لبِ راہ چلا کرو
نبی ﷺارشادفرماتے تھے کہ ‘‘مردوں کی بہترین صف پہلی اوربری صف آخری ہے اورعورتوں کی بہترین صف آخری اوربری صف پہلی ہے ۔’
نبی کریمﷺکے عہد میں مردوں کو یہ حکم بھی دیا جاتاتھا کہ وہ جلدی نہ کریں اورکچھ دیر کے لئے رک جائیں تاکہ عورتیں مسجد سے چلی جائیں اوریہ بھی آپؐ اس لئے فرماتےتاکہ مردوں اورعورتوں کا مسجد کے دروازوں پر اختلاط نہ ہواوریہ احکام ان مردوں اورعورتوں کے لئے تھے جوایمان اورتقوی کے اعتبارسےبہت بلند مقام پر فائز تھے ۔اس سے اندازہ لگایئے کہ ان کے بعد آنے والے مسلمانوں کو ان احکام کی پابندی کس قدر شدت سے کرنی چاہئے۔عید کے موقع پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےپہلے مردوں کو خطبہ دیا پھر عورتوں کی صف تک تشریف لے گئے، انھیں نصیحت فرمائی اور صدقہ کرنے کا حکم دیا“
حضرت علی بن ابی طالب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے علی ! ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالو، کیونکہ تمہارے لیے پہلی نظر معاف ہے، دوسری نہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا :جب کوئی شخص کسی تنہا عورت کے پاس ہو تو تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ (ترمذی)
لیکن جہاں تک بات ہے مخلوط نظامِ تعلیم کی ، جو مغرب سے درآمد کردہ ہےانگریزوں نے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے جو نظام تعلیم نافذ کیا تھا وہ مکمل طور سے مغربی تہذیب کا آئینہ تھا اور اس کا خاص مقصد مسلمانوں کی نئی نسل خصوصامشرقی خاتون کو بھی یورپی عورتوں کی طرح بے حیائی وعصمت باختگی پر مجبور کردیا جائے اور مسلم قوم بھی مجموعی طور پر عیش کوشی وعریانیت ہوس پرستی کی بھینٹ چڑھ جائے وہ اس میں بہت حد تک کامیاب بھی رہے۔ہماری اکثریت ان کی اندھی تقلید کر رہی ہے لیکن اس کے مضر پہلو سے اکثریت غافل ہے اور اس کو ناپسند کرنے والوں کو” قدامت پسند،دقیانوسی،رجعت پسند اور ملا“ کاخطاب دیا جاتا ہے۔حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ فرماتےہیں : ’، مخلوط نظام تعلیم چونکہ دین فطرت اسلام کےدیئےگئےاصول وقوانین تعلیم کونظراندازکرکے بلکہ اس کو ختم کرنے کے مقصد سے ترتیب دیا گیا ہے، لہٰذا جہاں کہیں بھی یہ نظام تعلیم نافذ کیا گیا وہاں اس کے سنگین و مہلک اثرات و نتائج مذہب بیزاری، تہذیب و اقدار سے دست برداری اور شہوت رانی و جنسی انارکی ہی کی شکل میں نمودار ہوئے ہیں، اور یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے اسلامی تعلیمات میں مخلوط نظام تعلیم کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
دور حاضر میں مخلوط تعلیم کی ابتدا امریکہ میں 1774 ء ہوئی انگلستان میں 1902 ء میں اسےقانونی درجہ دے دیا گیا لیکن مذہبی اقدار کے حامل لوگوں نے مخلوط تعلیم کو سخت ؎ناپسند کیاروس نے انقلاب کے بعد بیس سال تک مخلوط تعلیمی نظام کا تجربہ کرنے کے بعد یکسر اس کو مسترد کر دیا۔اسرائیل نے بعض درجے پر اس کو ترک کیا ہوا ہے اور مغربی ممالک میں بھی اچھی یونیورسٹیوں ،کالجوں اور اسکولوں میں مخلوط تعلیمی نظام نہیں ہے تو کیا یہ لوگ بھی تنگ نظر ’ملا‘ ہیں؟؟
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازاں
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
یگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہٴ زن
ہے عشق ومحبت کے لیے علم وہنر موت
مخلوط تعلیم کے تباہ کن اثرات کا مشاہدہ کرنا ہو تو موجودہ معاشرے کا جائزہ لیجئے، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے حوالے سے شائع ہونے والی خبریں پڑھئے، شاید ہی کسی دن کے اخبارات ایسی خبروں سے خالی رہتے ہوں جن میں مخلوط نظام تعلیم کے کسی برے اثر کا تذکرہ نہ رہتا ہو۔
مخلوط تعلیم کا سب سے برا اثر نئی نسل کے اخلاق پر پڑرہا ہے، ، شرم وحیاء جو انسان کا سب سے قیمتی زیور ہے رخصت ہوتا جارہا ہے، قریب البلوغ کا زمانہ جذبات میں ہیجان کا دور ہوتا ہے اس عرصہ میں نوخیز اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک ساتھ مل بیٹھنا اور بے حجابانہ میل وجول شہوانی جذبات کو بھڑکاکر ہیجانی کیفیت میں مبتلا کردیتا ہے
انگلینڈ کی مشہور مصنفہ ”مس مارگانتا لاسکی“ یہ دھماکہ خیز انکشاف کرتی ہے کہ: ”انگلستان کی تقریباً ۷۰ فیصد لڑکیاں شادی سے قبل ہی اپنے دوستوں سے جنسی تعلقات قائم کرلیتی ہیں اور ۳۳ فیصد لڑکیاں شادی سے قبل ہی حاملہ ہوجاتی ہیں
امریکہ کے ایک معروف ادارے ایسوسی ایشن آف امریکن یونیورسٹیز نے حال ہی میں ایک سروے کرایا جس کے مطابق امریکہ میں ایک چوتھائی (یعنی ہر چار میں سے ایک طالبہ) طالبات یونیورسٹی کیمپس میں جنسی حملوں او رغلط طرز عمل کا شکار ہوتی ہیں، یہ سروے امریکہ کی 27 اعلیٰ یونیورسٹیوں بشمول ہارورڈ یونیورسٹی میں کروایا گیا -ورجینیا کے ایک چھوٹے سے لڑکیوں کے اسکول کے بارے میں خود وہاں کی طالبات کا کہنا ہے کہ ہے 75 سے 85 فیصد تک کی لڑکیاں جنسی تعلقات قائم کرچکی ہوتی ہیں،
(Revolt of Modern youth)اپنی کتاب جج بن لنڈ سے (Benlindsey)
میں لکھتا ہے کہ: ”امریکہ میں ہائی اسکول کی کم از کم ۴۵ فیصد لڑکیاں اسکول سے الگ ہونے سے پہلے خراب ہوچکتی ہیں اور بعد کے تعلیمی مدارج میں یہ تناسب اس سے کہیں زیادہ ہے،لندن کے ایک سماجی کارکن نے اپنی مطالعاتی رپورٹ میں وہاں کی مخلوط تعلیم گاہوں میں صنفی آوارگی اور جنسی انارکی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ”(Anarchy)
اسکول میں آج کل چودہ برس کے لڑکے اور لڑکیاں عام طور پر مانعِ حمل اشیاء اپنے اپنے بیگ میں لیے پھرتے ہیں کہ جانے کب کہاں ضرورت پڑجائے؟
یہ اس معاشرہ کی حالت ہے جہاں بغیر شادی کے جنسی تعلقات رکھنے کو قانونی اور اخلاقی طور پر برا نہیں جانا جاتا ہے، جہاں جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے،خود ہمارے ملک کی صورت حال کچھ کم ابترنہیں یونیورسٹیز اور مخلوط تعلیمی اداروں میں عصمت ریزی جنسی استحصال صنفی آوارگی اور جنسی انارکی کی دل دہلا دینے والی خبریں یہ تعلیم رحمت نہیں، خدا کا قہر ، ہے اس کی مذہب اسلام تو کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتا، نیز عقل دانا بھی اس سے پناہ مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
۔مخلوط تعلیم عہد حاضر کا ایک اہم قومی مسئلہ ہے جس پر حکومت اور والدین دونوں کو ہی غور و خوض کی ضرورت ہے اس ضمن میں مسلسل بچوں کی کردار سازی کرنی ہوگی اور حدود و قیود کی پاسداری بھی لازمی کروانی ہوگی ایسے ہلاکت خیز ماحول میں بھی اگر ہوش کے ناخن نہ لیے گئے، اور لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کو بھی روشن خیال“ بنانے کا مخلوط طریقہٴ کار یوں ہی برقرار رہا، تو ہر آنے والا دن بنتِ حوا کی عزت وناموس کی پامالی کی خبرلے کرآئے گا وہ مقامات، جو انسان کو تہذیب وشائستگی اور انسانیت کا درس دینے، قوم ووطن کے جاں نثارخادم اور معاشرے کے معزز وکامیاب افراد تیار کرنے کے لیے منتخب کیے گئے تھے؛ محض حیوانیت وبہیمیت اور شہوت رانی وہوس کاری کے اڈے بن کر رہ جائیں گے
خواتین کو تعلیم دی جائے، اسلام قطعاً اس کی مخالفت نہیں کرتا؛ بلکہ وہ تو اس کی حد درجہ تاکید کرتا ہے ان کی تعلیم وہی ہو، جو ان کی فطرت، ان کی لیاقت کے مناسب ہو اور ان کی عفت وعصمت کی حفاظت میں ممدومعاون ہو، نہ کہ ایسی تعلیم، جو انھیں شیاطینُ الانس کی درندگی کی بھینٹ چڑھا دے، اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح فہم کی توفیق بخشے۔ (آمین)