ماہ اگست کی بیش بہا خوشیوں کے ساتھ ہی ستمبر میں رونما ہونے والے واقعہ کی یادیں تازہ ہونے لگتی ہیں لیکن لگتا یوں ہے کہ شائد اب ہم آخری لوگ ہیں جنہیں 6 ستمبر ،14 اگست، 23 مارچ کے دنوں سے کوئی انسیت چاہت محبت ہو کیونکہ اب تو ہر طرف اور خاص کر سوشل میڈیا پر یہ بات زدعام ہے کہ بٹوارا کیوں ہوا ہم الگ ہی کیوں ہوئے اور اس سے بڑھ کر کہ یہ ملک بنایا ہی کیوں گیا،کوئی پڑوسیوں کی ترقی کو ستائشی الفاظ سے بیان کرتا نظر آتا ہے تو کوئی ان کی خارجہ پالیسی کی مدحت کرتا۔ اس سب میں جہاں وطن عزیز کی تنزلی کے عوامل جس میں کرپشن اقرباء پروری نااہلی بے ایمانی سرفہرست ہیں وہیں ایک بہت بڑا مسئلہ اس نسل کے سامنے اپنے اقدار اپنی روایات اپنے وقار کو رکھنے کی بجائے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کیا گیا کہ یہ جو کرپٹ لوگ ہیں یہی ہماری اساس ہیں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جب ہم قائد محترم محمد علی جناح کے فرمان کے مطابق کہ،،،،
ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں اگر ہم اس قول سے پھر رہے تھے تو ہمیں اپنی اساس کی طرف پلٹنا چاہئے تھا لیکن ہم نے پاکستان کو اسلامی بنانے کی بجائے اس میں دین سے دوری کی آمیزش شروع کردی اور یوں رفتہ رفتہ وہ نوجوان جنہوں نے اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنا تھی وہ اس کی محبت سے آری ہونے لگے اور جن قوتوں نے پاکستان کا پاکیزہ وجود کبھی قبول ہی نہیں کیا تھا ان کا آلہ کار بن کر اس اسلامی قلعہ کو ہر ہر لحاظ سے غیر مستحکم کرنا شروع کردیا اور المیہ تو یہ رہا کہ اگر ہار صرف معیشت کی ہوتی تو بھی حالات اتنے درگوں نہ ہوتے لیکن ان ظالموں نے ہماری اخلاقی ملکی تمدنی معاشرتی اور دینی اقدار کو تار تار کردیا اور ہم آج اس حال میں ہیں کہ محمد علی جناح کے فرمودات کی بجائے ہمیں نہرو گاندھی اور ابو الکلام کے فرمان یاد آرہے ہیں یہ سب ایک منظم طریقے سے ہماری نوجوان نسل کی کچے ذہنوں میں ڈالا جارہا ہے اور اس سب کا منبع صرف اور صرف مال و متاع کی محبت ہے۔
چونکہ ہماری معیشت کو زمین بوس کردیا گیا ہے تو ان کو ہندوستان کی معیشت ہمیں اچھی لگ رہی ہے اس کا چاند پر جانا ہمیں بہت دلفریب لگ رہا ہے جبکہ ہندوستان میں بھی ابھی غربت کا ایک الگ لیول ہے لیکن چونکہ ہمارے ذہن اس زہر سے بھر چکے ہیں کہ ہمارا ملک ٹھیک نہیں، تو اب ہم دوسروں کی محبت میں گرفتار صحیح اور غلط کی پرواہ کئے بغیر حق اور باطل کی تمیز سے بے بہرا صرف اور صرف دنیا کی محبت میں اپنی یہ دنیا بھی اور آخرت بھی خراب کئے جارہے ہیں۔
آج ہمیں نہ صرف جنگ آزادی سے لیکر پاکستان بننے سے متعلق اس نوجوان نسل کو بتانے کی ضرورت ہے بلکہ کس کس طرح اس وطن عزیز کے بننے کی بعد اس کی سالمیت پر حملے کئے جارہے ہیں اسکا بھی پرچار کرنا ہوگا اور جیسا کہ
حضور نے فرمایا کہ : ”جس نے نماز پڑھی جیسی ہم پڑھتے ہیں اور جس نے اسی قبلہ کو اختیار کیا جو ہمارا ہے اور جس نے ہمارا ذبیحہ کھایا وہ ہم میں سے ہے۔“
یہ ”ہمارا ذبیحہ کھایا“ دوسرے الفاظ میں یہ معنی رکھتا ہے کہ مسلمانوں میں شامل ہونے کے لئے ان اوہام و قیود اور بندشوں کا توڑنا بھی ضروری ہے جن کاجاہلیت کی حالت میں کوئی شخص پابند رہا۔
ہندوستان میں مسلم اداروں نے گائے کی قربانی کے بارے میں فتوی دیا ہے کہ : “ہندوستان میں گائے کی قربانی نہیں کرنی چاھیے تاکہ دیس میں بھائی چارگی کی فضا قائم رہے.”
یہی بات 1945 میں مولاناسیدمودودیؒ سے پوچھی گئی کہ : ہندوستان میں گائے کی قربانی کو ممنوع قرار دیا جائے سیدمودودیؒ نے کہا کہ گائے کی قربانی کرو یا بکرے کی اونٹ دنبے کی پر ہندوستان میں تو گائے کی قربانی کرنا واجب ہے کیونکہ یہاں گائے تقدس ہے معبود کی حیثیت رکھتی ہے، اسی لئے ہندوستان میں گائے کی قربانی کو میں واجب سمجھتا ہوں اور اس کے ساتھ میرے نزدیک کسی نو مسلم ہندو کا اسلام اس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک وہ کم از کم ایک مرتبہ گائے کا گوشت نہ کھا لے۔
اسی طرح آج ہمیں بھی ان جیسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ 6 ستمبر 1965 کو ظالمانہ حملے کرنے کی وجہ پتہ چل سکے کہ جن لوگوں نے ہمارے وطن عزیز کا وجود کبھی تسلیم ہی نہیں کیا وہی لوگ ہیں جو ایک طرف ہمارے نوجوانوں میں زہر بھر رہے ہیں اور دوسری طرف دین اور ملت سے بیزار غداروں کو پیسہ مراعات اور عہدوں کی لالچ میں ان سے وہ سب کام لے رہے ہیں جس سے وطن عزیز کی سالمیت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے درمیان سے انُ کالی بھیڑوں کی نشاندہی کریں تاکہ انُکو کیفر کردار تک پہنچا کر وطن عزیز پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکے اور پاکستان کو واقعتاً اسلام کا قلعہ بنایا جاسکے کیونکہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر اور تفرقے میں نہ پڑ کر ہی ہم اللہ کی خوشنودی رضامندی حاصل کرسکتے ہیں جو نہ صرف ہمیں دنیا میں کامیاب و کامران کرے گا بلکہ جنتوں کا بھی وارث بنائے گا ان شاءاللہ۔