جی ہاں کہیں نہ کہیں تو بندہ سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے بالکل اسی طرح جیسے جو ڈالی جھکتی نہیں تو وہ ٹوٹ جاتی ہے یعنی ڈالی کو ٹوٹنے سے بچنے کے لیے جھکنا ضروری ہے۔
آج کا دور بیشک پریشانیوں اور مسائل سے بھرا ہوا ہے لیکن ان مسائل اور پریشانیوں کی آدھی وجہ ہم خود ہیں، ابھی کل ہی مجھے کسی عزیزہ نے بتایا کہ ایک خاتون نے اپنے اکلوتے بیٹے کوکسی معمولی جھگڑے پر کہا کہ اب تم میاں بیوی اس گھر میں نہیں رہ سکتے لہٰذا بیٹا اور بہو ایک کرائے کے گھر میں شفٹ ہوگئے، جبکہ خاتون کی پانچوں بیٹیاں بھی شادی شدہ ہیں_ چند ماہ بعد خاتون کے شوہر کا انتقال ہو گیا تو سوئم والے دن بیٹے نے محبت میں ماں سے کہا کہ اب ہم آپ کے ساتھ رہیں گے، ماں نے صاف منع کر دیا کہ نہیں_ میرے ساتھ میری ایک شادی شدہ بیٹی رہے گی، مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے۔
میں یہ نہیں کہہ رہی ہوں کہ سراسر قصور ماں کا ہوگا ضرور بیٹے کا بھی ہوگا ماں اپنے اکلوتےبیٹے کو معاف کر دیتی اور سمجھوتہ کر لیتی مشکل گھڑی میں اس کا ساتھ قبول کر لیتی، اس طرح اس کا بڑھاپا عزت کے ساتھ بیٹے پوتوں، پوتیوں اور بہو کے ساتھ گزرتا، یعنی ایسے موقعوں پر سمجھوتے کی ضرورت لازمی یے اب یہی دیکھیں کہ آج کل اکثر بیٹیوں کے والدین اپنی بچیوں کے رشتوں کے لئے پریشان ہیں، یہ نہیں کہ رشتے نہیں ارہے ہیں، ارہے ہیں لیکن انہیں یا ان کی بیٹیوں کو اس میں کہیں نہ کہیں کمی یا خامی نظر اتی ہے اور انکار کر دیا جاتا ہے اس صورت حال میں بچیوں کی شادی کی عمریں نکلتی جارہی ہیں۔
پھر صرف پچھتاوے کے کچھ نہیں بچتا کہیں والدین یہ کہتے ہیں کہ لڑکے کی فیملی بڑی ہے، کہیں لڑکے کی تنخواہ کم نظر آتی ہے کہیں یہ کہا جاتا ہے کہ لڑکے کا ذاتی مکان نہیں ہے کوئی یہ کہتا سنائی نہیں دیتا ہے کہ لڑکا صوم و صلوٰۃ کا پابند نہیں، یعنی دوسری دنياوی باتوں پر سمجھوتہ قبول نہیں لیکن اصل چیز کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے آج اسی بنا پر کئی گھرانوں میں لڑکیاں اپنی ڈیمانڈ کے مطابق رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے رشتوں کے انتظار میں بیٹھی ہوئی ہیں۔
یعنی خوب سے خوب تر کی تلاش میں یہ بچیاں بوڑھی ہو جاتیں ہیں میں نے کچھ سمجھوتہ کرنے والے گھرانوں کو دیکھا کہ انہوں نے اچھامناسب رشتہ دیکھا بیٹی کی شادی کردی الحمد للہ ان بچیوں کی قسمت میں جو کچھ اپنے رب کی طرف سے ملنا تھا وہ شادی کے بعد انہیں مل گیا،اور وہ بچیاں آج ایک خوشگوار زندگی گزار رہیں ہیں_ جبکہ کچھ ایسے گھرانے بھی دیکھے ہیں جنہوں نے بڑی تگ و دو سے بہترین رشتہ سمجھتے ہوئے طے کر دیا کہ چھوٹی فیملی ہے بہت بڑی عالیشان محل نما گھر ہے لڑکے کی ملازمت بھی قابل رشک ہے، لیکن شادی کے بعد لڑکی کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، اس وقت لڑکی کی والدہ کے منہ سے یہ بات نکلی کہ اس سے بہتر تھا کہ کسی متوسط طبقے میں اپنی بیٹی کی شادی کرتے تو ہماری بیٹی کو اتنے دکھ تو نہیں ملتے۔
میرے کہنے کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ بچیوں کی بغیر چھان بین اور جو رشتہ آئے فورا کر لیں، نہیں ہر گز نہیں ماں باپ کو ضرور چھان بین اور احتیاط کرنی چاہیے لیکن خوب سے خوب تر کی تلاش میں وقت ضائع نہ کرنا چاہیے کہیں کسی جگہ تھوڑی سی کمی نظر آئے تو سمجھوتہ کر لینا چاہیے، ہاں بنیادی اور اہم باتوں کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے جیسے لڑکی تو انتہائی پڑھی لکھی ہے لڑکا چند جماعتیں پاس چھوٹا موٹا کاروبار کر رہا ہے یا لڑکی دولتمند گھرانے کی پر اسائش زندگی کی عادی ہے اسے نچلے متوسط طبقے میں بیاہ دیا یا یہ چیزیں یقیناً لڑکی کے لئے تکلیف کا باعث بن سکتی ہیں، جبکہ چھوٹی یا معمولی بات پر رشتے سے انکار کرنا درست نہیں ہے۔