عہد حاضر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی نے جہاں بنی نوع انسان کے لیے بے شمار ثمرات لائے ہیں وہاں اس سے جڑے متعدد چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ ان میں سائبر سکیورٹی بھی ایک توجہ طلب چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر مسلسل کوششیں جاری ہیں۔ اسی حوالے سے ابھی حال ہی میں چین میں پہلی سائبر سکیورٹی سمٹ کا انعقاد کیا گیا، جس میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی سلامتی اور سائبر اسپیس گورننس کو اجاگر کیا گیا۔”مشترکہ طور پر سائبر سکیورٹی اور گورننگ سائبر اسپیس” کے عنوان سے منعقد ہونے والی اس دو روزہ کانفرنس میں 500 سے زائد شرکاء نے شرکت کی جن میں ماہرین تعلیم، اسکالرز، کاروباری افراد اور سرکاری حکام شامل رہے۔ چین نے حالیہ برسوں کے دوران، ایک بہتر گورننس اور محفوظ سائبر اسپیس کی تعمیر میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ چین نے اپنی سائبر اسپیس مینجمنٹ اور جواب دہی کے طریقہ کار کو بہتر بنایا ہے، مزید آن لائن مواد تخلیق کیا گیا ہے جس نے پورے معاشرے کو ایک مثبت توانائی فراہم کی ہے، اور ملک کی سائبر اسپیس گورننس کے نظام کو عمدگی سے آگے بڑھایا ہے۔ ملک نے ایک شفاف سائبر اسپیس کی تشکیل کے لیے ملک گیر مہمات بھی شروع کی ہیں، جس میں نمایاں مسائل جیسے غیر منظم فین کلب سرگرمیاں، انٹرنیٹ اکاؤنٹس اور سائبر اسپیس وائلنس کے انسداد کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور ایسی منفی سرگرمیوں کو سختی سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
سائبر سکیورٹی سمٹ کے دوران چین کے نیشنل کمپیوٹر وائرس ایمرجنسی رسپانس سینٹر کی رپورٹ کے مطابق 2023 میں چین میں انفرادی صارفین کو نشانہ بنانے والے کمپیوٹر وائرس کے حملوں کی تعداد میں کمی آئی ہے جبکہ گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں تنظیموں کے خلاف حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔سمٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ تعلیم، مالیات اور صحت سمیت اہم انفارمیشن انفراسٹرکچر کا شعبہ، جس میں کافی حساس ذاتی ڈیٹا شامل ہے، 2023 میں ڈیٹا خلاف ورزیوں کا ایک اہم ہدف بن گیا ہے۔مصنوعی ذہانت کی بڑھتی ہوئی ترقی نے سائبر سیکیورٹی کے نئے خدشات متعارف کرائے ہیں،ایسے میں عالمی سطح پر سائبر جرائم پیشہ عناصر کا مقابلہ کرنے کے لیے بین الاقوامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان مزید تعاون کی ضرورت ہے۔دوسری جانب، چین میں جنریٹو اے آئی سروسز کے انتظام سے متعلق عبوری ریگولیشن 15 اگست سے نافذ العمل ہو چکا ہے، جس میں اس مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں اور ساتھ ہی جنریٹیو اے آئی سروس فراہم کرنے والوں کے لیے بنیادی اصول بھی طے کیے گئے ہیں۔
یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ چین نے گزشتہ دہائی میں مسلسل کوششوں کے نتیجے میں نسبتاً جامع سائبر قانونی نظام تشکیل دیا ہے۔اس حوالے سے وضع کردہ قوانین اور ضوابط کا مقصد لوگوں کے قانونی حقوق اور عوامی مفاد کا تحفظ کرنا اور سائبر اسپیس کی پائیدار اور صحت مند ترقی کے لئے قانونی ضمانت فراہم کرنا ہے۔گزشتہ ایک دہائی میں چین کی سائبر قانون سازی کے اعتبار سے قابل ذکر کامیابیوں میں پانچ خصوصی قوانین بنائے گئے ہیں۔2016 میں نافذ ہونے والے سائبر سیکیورٹی قانون کے بعد سے نیٹ ورک کی مصنوعات، خدمات، آپریشن اور اہم معلومات کے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کے لئے اقدامات کیے گئے ہیں۔اسی طرح 2018 میں، الیکٹرانک کامرس قانون نافذ کیا گیا تھا، جس نے ای کامرس آپریشنز کو ”باقاعدہ” بنایا اور صارفین کے حقوق اور دانشورانہ ملکیت کے حقوق کے تحفظ کو مضبوط بنایا۔2021میں نافذ ہونے والے ڈیٹا سیکیورٹی قانون نے قومی ڈیٹا سیکیورٹی کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے اور ڈیٹا کے قانونی، منطقی اور مؤثر استعمال کو فروغ دیا ہے۔ اسی سال، ذاتی رازداری کے تحفظ کو بہتر بنانے اور لوگوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لئے پرسنل انفارمیشن پروٹیکشن قانون نافذ کیا گیا تھا۔گزشتہ سال، ملک نے ٹیلی کام اور آن لائن فراڈ سے نمٹنے کے لئے قانون نافذ کیا، جو جرائم کے سدباب اور لوگوں کے املاکی حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لئے مضبوط قانونی مدد فراہم کرتا ہے۔
اسی طرح چین نے روایتی قانونی اصولوں کو سائبر اسپیس تک توسیع دینا بھی جاری رکھا ہے، جس میں پرسنل انفارمیشن پروٹیکشن قانون، فوڈ سیفٹی قانون اور نابالغوں کے تحفظ سے متعلق قوانین میں ترمیم شامل ہے۔ یہ تمام اقدامات واضح کرتے ہیں کہ انٹرنیٹ کے ترقیاتی رجحان کی پیروی کرتے ہوئے چین نے قانون سازی کے ذریعے اپنی سائبر اسپیس گورننس کو آگے بڑھایا ہے جو ”ایک معقول، سوچے سمجھے اور جمہوری طریقے سے نافذ کی گئی ہے” جس سے ”منظم، جامع اور مربوط ” سائبر قانون سازی میں مدد مل رہی ہے۔