گرچہ اس موضوع پر میں کافی مرتبہ لکھا جاچکاہے، لیکن جب کوئی اس نوعیت کی بات دیکھتی ہوں تو دل چاہتا ہے کہ چند جملے ہی سہی ضرور لکھوں، کیوں کہ ہمارے ہاتھ میں قلم ہے اور قلم کا حق ادا نہ کرنا نا انصافی ہوگا۔
ہمارے آس پاس ہونے والی بہت سی بد اخلاقیوں میں سے ایک بے جا تنقید بھی شامل ہے، گھروں سے لے کر دفتروں تعلیمی اداروں سمیت ہر جگہ یہ نظر آتی ہے، ساس بہو کے کاموں میں سے کیڑے نکالتی ہے، استاد شاگردوں کے،،، یہی حال دفتروں میں بھی نظر آتا ہے ایک صاحبہ کو لکھنے لکھانے کا بڑا شوق تھا لیکن ان کی تحریر پر اس قدر نقطہ چینی کی گئی کہ انہیں قلم اٹھانے کی ہمت نہیں ہورہی تھی، حالانکہ اس کی سادہ سی تحریر میں بہت سے سبق چھپے ہوئے تھے مجھے ایک بڑی مصنفہ کی بات یاد آگئی کہ اچھی تحریر مشکل اور پیچیدہ الفاظ کی محتاج نہیں آپ کے گرد جو کچھ ہورہا ہے اور آپ کو جیسا لگ رہا ہے اسے ویسے ہی آپ آسان الفاظ کے پیراہے میں ڈھال سکتے ہیں تو بھی آپ لکھاری بن سکتے ہیں۔
معروف مصنفہ کی اس بات نے مجھے بہت متاثر کیا تھا مجھے یوں لگا کہ یہ ہم جیسے تمام لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں، جی ہاں حوصلہ افزائی جو کہ کسی بھی(فیلڈ) کام میں آپ کو بڑا سہارا دیتی ہے، الحمد لله ! آج میں تھورا بہت جو بھی لکھنے کے قابل ہوئی ہوں (حالانکہ ابھی بہت سیکھنے کی ضرورت ہے) اپنے ارد گرد کے بہترین ساتھیوں کی وجہ سے ہوئی ہوں اور ان سے کچھ سیکھنے میں جھجھک بھی محسوس نہیں کرتی۔
میں نے اپنے درس و تدریس کے دور میں اپنے بہت سے شاگردوں کی حوصلہ افزائی کی( جن سے ان کے والدین بھی نالاں تھے) اس طریقہ کار سے وہ ماشاءاللہ آگے بڑھےاور کامیاب بھی ہوئے، میری بڑی بہو جب ہمارے گھر کا حصہ بنی تو اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ اسے کھانا بنانا نہیں آتا میں نے کہا آپ بنا سکتی ہو اس نے میرے کہنے پر کوشش کی، کہنے لگی امی اچھا نہیں بنا میں نے اسے تحمل سے کہا برا بھی تو نہیں بنا اور کھانے والے ہم ہیں جو تمہارے اپنے ہیں آج وہ بہترین کھانا بناتی ہے، یعنی اگر کہیں کسی میں کوئی کمی بیشی بھی نظر آرہی ہو تو مثبت انداز میں اس کی اس طرح اصلاح کی جائے کہ اسے ٹھیس نہ پہنچے یہی انداز نہ صرف آپ کے لیے بلکہ سامنے والے کے لئے بہترین ہوگا کیونکہ بےجا تنقید کرنے والے دوسروں کے دلوں سے اتر جاتے ہیں۔
الحمداللہ میں جماعت اسلامی کی حریم ادب سے وابستہ ہوں ہر جگہ نہ صرف انکی طرف سے سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے بلکہ انکی حوصلہ افزائی مجھے میری ذمہ داری کا مزید احساس دلاتی ہے کہ مجھے بہتری کی طرف جانا چاہئے، بعض لوگوں کی یہ رائے یا سوچ ہوتی ہے کہ حوصلہ افزائی صرف بچوں کے لیے ضروری ہے اور ان کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے حالانکہ ہر عمر اور جگہ ان دونوں چیزوں کا خیال رکھنا انتہائی ضروری امر ہے۔