اپنے کردار پہ ڈال کہ پردہ اقبال
ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے
میڈم نورین کالج کی عمارت میں داخل ہوئیں اپنی حاضری لگائی اور تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں کرکے واپس چلی گئیں یہ کہہ کر کہ مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے میڈم ناہید دیر سے کالج پہنچی اور ایک خالی میز کی طرف بڑھ گئی اپنا بڑا سا بیگ میز پر رکھا اس میں سے قرآن مجید نکال کر کرسی پر بیٹھ کر پڑھنے لگیں قرآن پڑھ کر فارغ ہوئی تو تھوڑی دیر جاکر صوفے پر لیٹ گئیں،
طالبہ ! اسکیوزمی میڈم آپکی کلاس ہے ہم انتظار کر رہے ہیں
میڈم ناہید (غصہ میں) کتنی اسٹوڈنٹس آئیں ہیں؟
طالبہ ! میڈم سات ہیں شاید،
میڈم ! باقی کہاں ہیں؟ چھ سات کو بٹھا کر میں اپنا دماغ خراب کروں گی، جب سب لڑکیاں آئیں گی تو کلاس ہوگی اب تم لوگ خاموشی سے لائبریری میں جاکر بیٹھو، یہ کہہ کر میڈم ناہید نے اٹھ کر اپنا عبایہ پہنا اور کالج سے باہر جانے لگیں، سامنے سے اپنی ایک کولیگ کو آتے دیکھا تو راستہ بدلنے لگی لیکن دوسری طرف سے کولیگ کی آواز آئی آپ جارہی ہیں؟
ہاں میری طبیعت ذرا خراب ہے،
یہ میڈم ناہید کا اکثر کا معمول تھا کہ وہ حاضری لگا کر کسی نہ کسی بہانے سے چلی جاتیں،
میڈم ناہید اس سرکاری کالج کی ایک انتہائی نیک صوم و صلوٰۃ کی پابند استانی ہیں، جن کا اس کالج ٹائم میں سے آدھا وقت قرآن پاک اور تسبیح پڑھنے میں گزرتا ہے وہ اکثر ساتھیوں کو وعظ و نصیحت کرتی ہیں اور پھر اگر اپنے سامنے کسی برائی اور غلط کام کو دیکھتی ہیں تو اسے برا بھلا کہتی ہیں کہ آج زمانے کو کیا ہو گیا ہے، مجھے اپنی ایک پڑوسن نے نورین اور ناہید کے بارے میں بتایا تو مجھے فورا علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آگیا؛
اپنے کردار پہ ڈال کہ پردہ اقبال
ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے
یہ صرف ایک ناہید کے معمولات نہیں ہیں بلکہ ہمارے اس وطن عزیز کے 50 فیصد سے زائد لوگ اسی طرح صرف دوسروں کی برائی کا رونا روتے ہیں کہ زمانہ خراب ہے( جبکہ زمانے کو برا کہنے سے ہمیں روکا گیا ہے) ہم سب اس معاشرے کا جزو ہیں لہذا ہر شخص کا عمل معاشرے پر اثر انداز ضرور ہوتا ہے معاشرے کے استحکام اور فلاح و بہبود کیلئے ہم سب کا اپنے اعمال کو مثبت راہ کی طرف لیکر جانا بےحد ضروری امر ہے اپنی غلطیوں سے چشم پوشی اور دوسروں کی غلطیوں کا پرچار کرنا مسائل کا حل نہیں ہے ہم سب کو اپنے آپ کو بدلنا ہوگا پھر ہی اجالا ہوسکتا ہے ورنہ ہم سب اسی طرح اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے