•دنیوی علم و عمل سے علم دین کا رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ اسلامی کلچر پھر سے جوان ہوجائے اور زمانے کے پیچھے چلنے کے بجائے آگے چلنے لگے۔تو اس ٹوٹے ہوئے ربط کو پھر قائم کیجئے۔مگر اس کو قائم کرنے کی صورت یہ نہیں ہے کہ دینیات کے نصاب کو جسم تعلیمی کی گردن کا قلاوہ یا کمر کا پشتارہ بنا دیا جائے۔نہیں اس کو پورے نظام تعلیم میں اس طرح اتار دیجئے۔کہ وہ اس کا دوران خون اس کی روح اس کی بینائی و سماعت اس کا احساس و ادراک اس کا شعور وفکر بن جائے۔اور مغربی علوم و فنون کے تمام صالح اجزاء کو اپنے اندر جذب کر کے اپنی تہذیب کا جز بناتا چلا جائے۔اس طرح آپ مسلمان فلسفی، مسلمان سائنسدان،مسلمان ماہر معاشیات،مسلمان مدبرین،غرض تمام علوم و فنون کے مسلمان ماہر پیدا کر سکیں گے۔جو زندگی کے مسائل کواسلامی نقطہء نظر سے حل کریں گے۔تہذیب حاضر کے ترقی یافتہ اسباب و وسائل سے تہذیب اسلامی کی خدمت لیں۔اور اسلام کے افکار و نظریات اور قوانین حیات کو روح عصری کے لحاظ سے از سرنو مرتب کریں گے۔یہاں تک کہ اسلام از سر نو علم و عمل کے میدان میں اسی امامت و رہنمائی کے مقام پر آجائے گا۔جس کے لیے وہ در حقیقت دنیا میں پیدا کیا گیا ہے۔
•اسلام کی حقیقت پر غور کرنے سے یہ بات خودبخود آپ پر منکشف ہوجائے گی۔کہ دنیوی تعلیم و تربیت اور دینی تعلیم کو الگ کرنا اور ایک دوسرے سے مختلف رکھ کر ان دونوں کو یکجا جمع کردینا بالکل لاحاصل ہے۔اسلام مسیحیت کی طرح کوئی ایسا مذہب نہیں جس کا دین دنیا سے الگ چیز ہو۔وہ دنیا کو دنیا والوں کے لیے چھوڑ کر صرف اعتقادات اور اخلاقیات کی حد تک اپنے دائرے کو محدود نہیں رکھتا۔اس لیے مسیحی دینیات کی طرح اسلام کے دینیات کو دنیویات سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔اسلام کا اصل مقصد انسان کو دنیا میں رہنے کا اور دنیا کے معاملات انجام دینے کے لیے ایک ایسے طریقہ پر تیار کرنا ہے۔جو اس زندگی سے لے کر آخرت کی زندگی تک سلامتی عزت اور برتری کا طریقہ ہے۔
•اسلامی اسپرٹ پیدا کرنے کا انحصار بڑی حد تک معلمین کے علم و عمل پر ہے۔جو معلم خود اس روح سے خالی ہیں۔بلکہ خیال و عمل دونوں میں اس کے مخالف ہیں۔ان کے زیر اثر رہ کر متعلمین میں اسلامی اسپرٹ کیسے پیدا ہو سکتی ہے۔ •کوئی فن ہو فلسفہ ہو یا سائنس معاشیات ہو یا قانون، تاریخ ہو یا کوئی اور علم مسلم یونیورسٹی میں اس کی پروفیسری کے لیے کسی شخص کا محض ماہر فن ہونا کافی نہیں ہے۔بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ پورا اور پکا مسلمان ہو۔اگر مخصوص حالات میں کسی غیر مسلم ماہر فن کی خدمت لینی پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن عام قاعدہ یہی ہونا چاہیے۔
•یونیورسٹی کسی کلچر کی خادم ہوتی ہے۔ہر درس گاہ کی تعلیم اک خاص رنگ اور خاص صورت میں ہوتی ہے۔
•اسلامی کلچر کے لیے وہ عالم دین بے کار ہے۔جو اسلام کے عقائد اور اصول سے واقف ہے۔مگر ان کو لے کر علم و عمل کے میدان میں بڑھنا اور زندگی کے دائم التغیر احوال و مسائل میں ان کو برتنا نہیں جانتا۔
اسی طرح اس کلچر کے لیے وہ عالم دنیا بھی بے کار ہے۔جو دل میں تو اسلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہے۔مگر دماغ سے غیر اسلامی طریق پر سوچتا ہے۔معاملات کو غیر اسلامی نظر سے دیکھتا ہے۔اور زندگی کو غیر اسلامی اصولوں پر مرتب کرتا ہے۔
عربی زبان یونیورسٹی کے اساسی مقصد سے تعلق رکھتی ہے۔اس کے لیے ہر حال میں جگہ نکالنی ہے۔ یہ زبان اسلام کے ماخذ اصلیہ تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ہے۔جب تک مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ قرآن و سنت تک بلا واسطہ دسترس حاصل نہ کرے گا۔اسلام کی روح کو نہ پا سکے گا۔نہ اسلام میں بصیرت حاصل کر سکے گا۔وہ ہمیشہ مترجموں شارحوں کا محتاج رہے گا۔اس طرح آفتاب کی روشنی اس کو آفتاب سے براہ راست نہ مل سکے گی۔