ایک حقیقت کو بچشم و سر دیکھنا اور اس کااعتراف نہ کرنا یا اعتراف کرنے میں کنجوسی برتنا، کہ اعتراف کی زد اپنے مخصوص نظریے پہ پڑتی ہے، اس طرز عمل کو تنگ نظری کہا جاتاہے۔ میں اس وقت تھوڑاسا تذکرہ میڈیا کی تنگ نظری کا کرنا چاہوں گی۔
قارئین! آپ بے خبر نہیں ہوں گے، الخدمت فاونڈیشن، کے نام اور کردارسے کہ سیلاب ہو یاقحط، کوویڈ 19 ہو یا روزمرہ کے عام مسائل الخدمت کے جوان کو آپ ہر جگہ یر موقع پہ سب سے پہلے سب سے آگے پائیں گے۔ اس کا اعتراف دنیا نے کیا ہے
22اگست 2023 خیبر پختونخواہ کے ضلع بٹگرام میں چئیرلفٹ میں معصوم بچوں کو جس کربناک صورتحال کاسامناکرناپڑا اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔ پاک فوج کے کمانڈوز نے فضائی آپریشن کیا مگر اندھیرا ہوجانے کے سبب آپریشن روکناپڑاجبکہ آدھے سے زیادہ بچے اورانکے دو استاد صاحبان چئیرلفٹ میں امدادی کاروائی کے منتظر تھے۔
یہی وہ مرحلہ تھا کہ جب الخدمت کے رضاکار آگے بڑھتے ہیں اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر وہ تدبیر اختیار کرتے ہیں جس پرعمل کرتے ہوئے وہ 2022میں ہز اروں سیلاب زدگان کو ریسکیوکر چکے تھے۔ یعنی چارپائی اور رسی کااستعمال۔ ساری قوم دعاوں میں مصروف تھی دعائیں رنگ لائیں۔ اور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ چئیر لفٹ میں پھنسے سب افراد کو ریسکیو کرلیاگیا۔
اس سارے واقعے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ہمارے میڈیا کا کیمرہ تو مجبورتھا اسکی آنکھ کی زد میں الخدمت کے جوان آگئے۔ مگر خود رپورٹرز و نیوز کاسٹرز الخدمت کا نام لینے سے گھبراتے رہے۔ یہ انکی، مجبوری ہے یا پالیسی، بہرحال غلط ہے یہ انداز۔
بلاشبہ یہ جوان یہ رضاکار صرف اور صرف اللہ کی رضا کی خاطر کام کرتے ہیں انکی تربیت اسی نہج پہ ہوئی ہے مگر بھئی کیا وہ ہمارے بھائی بند نہیں؟ وہ پوری قوم کے بیٹے نہیں؟ وہ ہمارے محسن نہیں؟ وہ بجائے اس سے کہ اپنی جوانیاں رات بھر سوشل میڈیا کی خرافات میں اور دن کے اوقات خراٹے بھرنے میں گزار دیتے، انہوں نے یہ انتہائی دشوار رستہ اپنایا تو ستائش تو دور کی بات، کیا میں اور آپ اعتراف بھی نہیں کرسکتے؟
ان میں سے زیادہ تر غریب ماوں کے جگرگوشے ہیں۔ مجبور بہنوں کے بھائی ہیں، اس وطن کو سب کچھ سمجھنے والیوں کے سہاگ ہیں۔
تو خدا را دل کو ذرا بڑا کیجیے۔
دل بڑا ہونا ایک اعلیٰ درجے کی خصلت ہے۔
ہم میڈیا سے بھی یہی کہیں گے کہ آپکی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کاتقاضا ہے مکمل رپورٹنگ۔ مبنی پرصداقت رپورٹنگ سو اسے پورا کیجیے۔
بہرحال آج دل خوشی سے نہال ہے کہ الحمدللہ سب افراد بچ گئے۔
تاہم کچھ فکریں بھی لگی ہیں کہ،،،، یہ بچے اور استاد صاحبان کو تو ہرروز اسکول پہنچنا ہوتاہے۔ اب اس واقعے کی دہشت ان کے ذہنوں سے مٹتے کچھ وقت تو لگے گا۔ یہ لوگ متبادل راستہ کیونکر اختیار کرپائیں گے یعنی وقت اور کرایہ اتنا کہاں سے لائیں گے۔
صوبے بھر کی چئیر لفٹس کا جائزہ لینے کا آرڈر تو جاری ہوگیاہے۔ مگر۔ آہ۔ ہر شعبے میں ہر محکمے میں اوپر سے نیچے تک کرپشن۔ اس کا کیا کیجیے کہ ہمیں اندازہ ہے کہ ایسے آرڈرز اور انکے نتائج کا کیا اور کیسا حال ہوا کرتاہے۔
تو،،،،،،پھر اے پریشان حال قوم! اے ہر دم حادثات کی زد میں رہنے والے میرے پیارے ہم وطن!
آو آج ایک کام کرتے ہیں۔ کہ پتہ کرتے ہیں کہ یہ چارپائی اور رسی کی تدبیر رو بہ عمل لانے والے سر پھرے جو ہیں ان کا تانا بانا کس سے جا جڑتا ہے، یہ نیلی اور اورنج کلر کی جیکٹوں والے ایویں اٹھ کے کہیں سے آگئے ہیں یا ان کے پیچھے کوئی مضبوط و مربوط نیٹ ورک ہے۔
آو پتہ کرو، تلاش کرو آخر یہ ٹیڑھی ٹوپی والا مرد کوہستان آخر ہے کون کہ جو ان کا سرپرست اعلی ہے، نہ خود چین سے بیٹھتا ہے۔ ابھی جڑانوالہ کے غمزدہ بچوں کی آہ و بکا سن رہاہے، ابھی رانی پور میں انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے بیچ جلوہ گر ہے۔
ایک پل میں پنجاب میں دکھائی دیتا ہے اگلی خبر آنے تک بلوچستان میں پایاجائے گا۔ چلو جب تک تمہاری جستجو مکمل ہو میں اپنی پسندیدہ نظم گنگناتی ہوں (اعتراف کرنے میں کنجوسی نہ کرنا کہ ان ٹھنڈے ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر آرڈرز جاری کرنے والے سیاسی لٹیرے ایسی خوشی سے تاحیات ناآشنا ہی رہتے ہیں بے چارے)
راہ وفامیں ہرسوکانٹے دھوپ زیادہ سائے کم
لیکن اس پہ چلنے والے خوش ہی رہے پچھتائے کم
آہ ! یہ ظالم تلخ حقیقت جتنے سفینے غرق ہوے
اکثر اپنی موج میں ڈوبے طوفاں سے ٹکرائے کم۔