1977کے عام انتخابات میں بری طرح شکست سے دوچار ہونے کے فوراً بعد ہی اندرا گاندھی نے سیاست سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کرلیا تھا،وہ ان دنوں صفدر جنگ روڈپر واقع اپنی رہائش گاہ پر مقیم تھیں۔ ان کو معلوم تھا کہ اب نئی حکومت ان کو اس بڑے سرکاری بنگلہ میں رہنے نہیں دیگی۔ وہ اس بنگلہ میں موجود قیمتی کشمیری قالینوں اور جمع کی ہوئی ہاتھ سے بنائی لاتعداد اشیاء کے بارے میں فکر مند تھیں۔ وہ اب ممبر پارلیمنٹ بھی نہیں تھیں۔ اس دوران اندرا گاندھی نے اپنے بڑے بیٹے راجیو گاندھی اور ان کی فیملی کو ممبئی میں کسی دوست کے پاس رہنے کیلئے بھیجا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ان پر اب جو عتاب نازل ہونے والا ہے، اس کی زد میں فیملی بھی آسکتی ہے۔ وہ اس حد تک پریشان تھیں، کہ راجیو، سونیا اور ان کے بچوں راہول اور پرینکا کو ملک سے باہر بھجوانے کیلئے وہ کئی صنعت کاروں کے ذریعے پرائیویٹ جیٹ کا انتظام کرنے میں لگی ہوئی تھیں۔ اس کی سن گن جب حکومت کو لگی تو وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی نے حکومتی جنتا پارٹی اتحاد کے روح رواں جے پرکاش نارائین سے مشورہ کیا اور رات کے اندھیرے میں دونوں اندرا گاندھی کے بنگلہ پر پہنچے اور ان کو یقین دلایا کہ ان کا ان کی فیملی سے بدلہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یہ بات بھارت کے مختلف وزراء اعظم کے اداوار کو طویل عرصے سے کور کرنے والی بھارت کی صف اول کی صحافی نیرجا چودھری نے اپنی کتاب PRIME MINISTERS DECIDEمیں لکھی ہے۔
بھارت میں انتقامی سیاست اسی طرح سیاست دانوں کے خون میں رچی بسی ہے، جیسے پاکستان کے سیاست دانوں میں ، لیکن ایک فرق تو یہ ہے کہ بھارت کی عدلیہ بہت آزاد ہے، اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ سیاست میں کوئی تیسرا فریق دخل انداز نہیں ہے۔ ہماری سیاست میں جو کچھ سیاستدان کرتے ہیں، وہ سب کچھ وہ نہیں ہوتا جو وہ خود سے کرتے ہیں، بہت سے فیصلے ان سے جبری کرائے جاتے ہیں۔
ہماری سیاست کا تیسرا بے نام کھلاڑی ہمیشہ سے فیصلہ کن طاقت رکھتا ہے،خواجہ ناظم الدین پہلے وزیر اعظم تھے جن کی حکومت کا تختہ الٹنے کا اعزاز گورنر جنرل ملک غلام محمد کو حاصل ہوا تھا۔ خواجہ ناظم الدین کو اس وقت بر طرف کیا گیا تھا جب انھیں قومی اسمبلی اور مسلم لیگ کی حمایت حاصل کی گئی۔ اقتدار سے ہٹانے کے بعد ان سے انتہائی شرمناک سلوک کیا گیا۔ان سے تمام سرکاری سہولتیں فوری طور پر واپس لے لی گئی تھیں ۔ اس سے قبل ملک میں لسانی فسادات ، قادیانی فسادات، طلباء فسادات اور گندم کی قلت کے مسائل پیدا کئے گئے تھے اور لاہور میں دو ماہ کے لئے مارشل لاء لگانے کی ریہرسل بھی کی گئی تھی۔ یہ سیاست کے تیسرے بے نام کھلاڑی تھے۔جن کی نظر میں خواجہ ناظم الدین کی کوئی عزت نہیں تھی۔
پھرامریکہ سے درآمد شدہ سفیر، محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم بنا دیا گیا تھا۔ قادیانی اس کھیل میں برابر کے شریک تھے۔ محمد علی بوگرہ کا نام بھی سرظفر اللہ نے تجویز کیا تھا ۔یہ پاکستان کے پہلے کٹھ پتلی وزیر اعظم تھے، جسے “تیسرے کھلاڑی ” نے ایک ایسی حکومت کا سربراہ بنایا، جس کی اپنی کوئی اسمبلی نہیں تھی۔ انکی حکومت کا یہ بھی کارنامہ تھا کہ ایک حاضر سروس آرمی چیف جنرل محمد ایوب خان کو وزارت دفاع کا قلمدان سونپ دیا گیا تھا۔ جن کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے امریکہ کے ساتھ مئی 1954ء میں ایک تاریخی معاہدے کے تحت نہ صرف امریکہ کو پاکستانی سرزمین پر فوجی اڈے دیے گئے بلکہ روس کے خلاف مختلف دفاعی معاہدوں میں شرکت بھی کی گئی تھی۔ اس کے عوض پاکستان کو بھاری فوجی اور اقتصادی امداد ملی تھی۔
پاکستان میں ابتداء ہی سے جمہوری قوت کو پنپنے نہیں دیا گیا۔ سیاست دانوں کی باہمی چپقلش نے بھی ایک مضبوط حکومت کے قیام اور ملک میں آئین اور پارلیمانی حکومت کی بالادستی قائم نہیں ہونے دی۔ بعد میں سیاست کی میوزیکل چیئر سے کئی وزیر اعظم آئے اور گئے۔ایوب خان کے طویل مارشل لاء اور ملک کے ایک حصے کو کھو دینے کے بعد فوج نے ایک ٹوٹے پھوٹے ملک اور 93 ہزار جنگی قیدیوں کی رہائی کے لیے بھٹو کو پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر اقتدار میں شریک کیا، لیکن اسے حقیقی اور خود مختیار فیصلے کرنے سے روکے رکھا،پھر بھٹو کو بھی نشان عبرت بنا دیا گیا۔
ضیاء الحق اور مشرف کے طویل مارشل لاء کے بعد بھی ملک میں جمہوریت کا سفر جب چاہا ریل کی پٹری سے اتار دیا گیا، سیاست دان جو بھی عوام میں جڑیں پکڑتا، اسے قید و بند سے گذرنا پڑا، بے نظیر بھٹو شہید ہوئیں اور نواز شریف کو جیل جانا اور عمر قید کی سزاء اور ملک سے بے دخلی کا سامنا کرنا پڑا۔سیاست دانوں نے بھی عافیت اس میں ڈھونڈ لی کہ وہ عوام سے رابطہ کے بجائے ان نادیدہ قوتوں کی طرف دیکھنے لگے، جو انھیں اقتدار کے مزے کرا سکتی ہیں، جن لوگوں نے بھی ان نادیدہ قوتوں کو آنکھیں دکھانے ، یا ان کے احکامات سے رو گردانی کی، انھیں سبق سکھا دیا گیا۔
اب ایک اور وزیر اعظم جیل میں ہیں، انھیں بھی ایک کے بعد ایک نئے مقدمے کا سامنا ہے، ان کی پارٹی کو تقسیم کرنے اور اسی مٹی سے ایک نئی پارٹی تخلیق کرنے کا کام پھر کیا جارہا ہے۔ دوسرے سیاست دان جو اقتدار کا تھوڑا سا مزا چکھ چکے ہیں، اس پر خوش ہیں ،سیاست دان کو اپنی لڑائی میں باہر والوں کی مدد نہیں لینی چاہیئے، نواز شریف اور بے نظیر بھٹو ایک بار میثاق جموریت پر متفق ہونے کے بعد جب ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوئے تو جمہوریت مٹی تلے دب گئی۔ اب اس کی لاش پر ایک نیا محل تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سیاست دانوں کو اب بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیئے۔ انھیں متفقہ طور پر ملک میں آئین کے مطابق مقررہ نوے دن میں انتخابات کا مطالبہ کرنا چاہیئے، ورنہ جس ملک میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو نظر انداز کردیا گیا ہو۔ وہاں اقتدار سے محروم ہوجانے والے سیاست دانوں سے انتقام نہ لینا، ایک خواب ہی ہوگا۔