قیامت کا سماں تھا ! بیشک قیامت کا سماں تھا چاروں طرف لاش اور خون کا منظر،،،اتنا شور کے کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔ کراچی سے پنڈی جانے والی ٹرین حادثے کا شکار ہو گئی تھی۔ کہیں سسکیاں کہیں آہیں۔
نوین اپنی دس سالہ بیٹی ربیعہ اور اپنے شوہر کے ہمراہ کراچی سے پنڈی اپنے بھائی کی شادی میں شرکت کرنے جا رہی تھی، نوین کس قد خوش تھی۔ جیولری کپڑے ایک دو ماہ سے گھر میں شادی کی خریداری و تیاری چل رہی تھیں، شرافت صاحب نے ہر ممکن کوشش کی کہ شادی میں شرکت سے قبل تیاری میں کوئی کسر باقی نہ رہے سب رشتہ داروں کے لیے تحفے تحائف خریدے گئےتھے۔ آخر کو تین سال بعد پنڈی جا رہے تھے وہ بھی اپنے اکلوتے سالےصاحب کی شادی میں شرکت کرنے۔ نوین بھی اپنے والدہ کی اکلوتی بیٹی تھی انٹر کے امتحانات کے بعد شرافت صاحب کی طرف سے رشتے کا پیغام آیا جو والدین نے نوین کی رضامندی سے قبول کیا یوں نوین دلہن بن کر کراچی رخصت ہوگئی۔
شرافت صاحب کی کاروباری مصروفیات کے باعث پنڈی کبھی کبھار ہی چکر لگتا کبھی والدین آکر کراچی نوین سے ملتے تو گھر میں عید کا سماں ہوتا مگر اس بار بھائی کی شادی میں شرکت کیلئے نوین نے بھرپور تیاری کی تھی شادی کے بعد نوین نےکراچی میں اپنی پڑھائی جاری رکھی نوین کی تربیت جس ماحول میں ہوئی تھی وہاں لڑکیوں کی تعلیم کو بڑی اہمیت دی جاتی اوپر سے شرافت صاحب کے ساتھ نے اسے مزید اعتماد دیا وہ اپنی پڑھائی مکمل کر کے کالج میں لیکچرار بن گئی ساتھ ہی ربیعہ کی پیدائش اور اس کی تربیت میں بھی کوئی کسر نہ رکھی میکے سے دور رہی مگر اپنے خواب کو تکمیل دے کر ملک کی خدمت کے خواب کو نوین نے مکمل کیا وہ خواب جو اس کے آبا و اجداد نے اس ملک کو بناتے وقت دیکھا تھا ایسا پاکستان جس میں موجود ہر فرد اپنے فرائض ادا کرتا جانتا ہو اپنی صلاحیت اپنے ملک کے لیے صرف کرے۔
کچھ عرصے قبل شرافت صاحب کو بزنس کے سلسلے میں بیرون ملک جانے کا اتفاق ہوا وہاں عوام کو ملنے والی سہولتوں کو دیکھ کر دل میں یہ خواہش جاگی کہ ہم بھی بیرون ملک شفٹ ہو جائیں مگر نوین کی وطن سے محبت اور بچپن کی تربیت ان کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔ شرافت صاحب ہم اس ملک کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے ہمارے آبا و اجداد نے اس لیے تو یہ قربانیاں نہیں دی تھیں کہ ہم اس ملک کو برا بھلا کہہ کر دوسرے ملک جا بسیں۔ نہیں یہ بالکل نہیں ہوگا میں اپنی تعلیم کا فائدہ اپنے ملک کے نوجوانوں تک ہی پہنچانا چاہتی ہوں اپنی تعلیم کے ذریعے اپنے ملک کی خدمت کرنا چاہتی ہوں آخر شرافت صاحب نے بھی اس خواہش کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔
اپنی بیٹی اور شوہر کی لاش کے پاس بیٹھی نوین کے سامنے اپنی زندگی کی تصویر گھوم رہی تھی حادثے کو کئی گھنٹے گزر چکے تھے جائے حادثہ کے قریب رہنے والے افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت زخمی اور میتوں کو ہسپتال لے جانے کا بندوبست کیا۔ بیل گاڑی اور ہاتھ گاڑی کے ذریعے میتوں اور زخمیوں کو ہسپتال لے جایا جا رہا تھا، اپنے شوہر اور بیٹی کی لاش کو اس قدر کسمپرسی کے عالم میں دیکھ کر نوین اپنا دل ہار بیٹھی اور لاشوں کی تعداد میں ایک اور لاش کا اضافہ ہو گیا۔
ٹی وی پر خبر چل رہی تھی ٹرین حادثے کے شہداء کی تعداد چوبیس سے پچیس ہو گئی وہ ایک لاش نہیں تھی بلکہ مخلص پاکستانی کی روح تھی جو اپنے پاکستان کے اداروں کی کرپشن اور اس کو لوٹ کر کھانے والوں کی وجہ سے جسم سے روح میں تبدیل ہو گئی تھی۔ کیا پاکستان اس لیے حاصل کیا تھا کہ پچھتر سال گزرنے کے باوجود عوام بنیادی سہولیات سے محروم رہیں۔ سیکڑوں جانیں ہر روز کرپشن، نااہلی، لاپرواہی، غلفت کے باعث لاشوں میں تبدیل ہو جائیں اور اس ملک کے اداروں سے مایوس نوجوان ملک چھوڑ کر بیرون ملک ہجرت کر جائیں۔ عجیب کرب و مایوسی کا سماں ہے۔ بچپن میں اپنے ملک کیلئے ملی نغمے گانے والے اور اسے جھنڈیوں سے سجانے والے آج ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ارباب اختیارکو ضرور سوچنا ہوگا۔