آج دنیاوی زندگی کی ترقی کے لئے لوگوں نے تمام حدود پار کردیں ہیں کیا غلط ہے کیا صحیح اس سے کوئی سروکار نہیں، بس شہرت اور زر چاہیے اس سلسلے میں لبرل ذہنیت کے مالک جو اپنے آپ پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں کہ ہم کھلے دل کے مالک ہیں ہم تنگ ذہنیت کے مالک نہیں ہیں، دن بدن آگے کی طرف جارہے ہیں ان کی اس دوڑ کو مزید تقویت دینے والے اور ساتھ دینے والے ہمارے محکمے بھی شامل ہیں، سب سے مقدس اوراہم محکمہ تعلیم ہےاس اہم محکمہ کی کارکردگی اس اسلامی ریاست کے لیے سوالیہ نشان ہے؟
تعلیمی اداروں میں پیش آنے والے آئے دن کے واقعات سے خصوصاً ایک حساس طبقہ نالاں ہے جو غلط نہیں، بے باکی، بے پردگی، ناچ گانے بیہودگی یہ ساری خرافات اسلامی معاشرے کے برعکس ہیں جو خصوصاً تعليمی اداروں کے تقدس کو پامال کرنے کا سبب ہیں یہی تعلیمی ادارے نئی نسل کی آبیاری کے ضامن ہوتے ہیں کیا ایک اسلامی ریاست کے اندر اس کی سرگرمیوں میں ملوث تعلیمی ادارے قوم کے نونہالوں کی صحیح رہنمائی کرسکتے ہیں خصوصاً موسیقی کو تعلیم کا حصہ بنانا اور تعلیمی اداروں میں تقریبات میں ناچ گانے کو شامل کرنا کسی طرح بھی درست نہیں ہے نہ جائز ہے اسلام میں اس چیز کی سختی سے ممانعت فرمائی گئی ہے۔
پچھلے دنوں ایک معروف اسلامی اسکالر کیا بیان سننے کا موقع ملا، مفتی صاحب نے فرمایا کہ اگر میں چند یونیورسٹیوں کے اندرونی شرمناک حالات کے واقعات بیان کروں تو شریف النفس والدین خصوصاً اپنی بیٹیوں کو تو ان تعلیمی اداروں میں قطعاً نہیں بھیجیں گے اب اگر تعلیمی اداروں میں گانے بجانے کی تعلیم کو عام کیا جائے گا تو آپ خود اندازہ لگائیں کہ وہ کیسی فضا ہوگی اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے جس برائی کی سختی سے ممانعت فرمائی آج ہم اس برائی کو ترقی کا زینہ سمجھتے ہوئے تعلیمی اداروں تک لے آئیں ہیں جبکہ ارشادات ربانی اور احادیث مبارکہ میں موسیقی ناچ گانے اور موسیقی کے آلات سے بھی دور رہنے کی سختی سے تاکید فرمائی گئی ہے جو اللہ اور رسول اللہ کی بات کو اہمیت نہیں دیے، کیا وہ مسلمان ہے؟ آخرت میں انکا کیا انجام ہوگا اللہ کے نافرمان اپنے آپ کو اللہ کی رضا سے محروم کردیتے ہیں۔
انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہم نے اس گانے کو روح کی غذا بنا کر اپنے آپ کو اپنے رب سے غافل کردیا ہے رب سے غافل ہونا اپنی ذات پر ظلم کرنے کے مترادف ہے رب العزت نے اپنے حبیب کو دنیا جہالت کی جن برائیوں کے خاتمے کے لئے مبعوث فرمایا آج ہم نے انہی برائیوں سے ناطہ جوڑ لیا ہے یہاں تک کہ تعلیمی ادارے بھی اس غلاظت سے محفوظ نہیں ہیں اگر ہمارے حکمران اور متعلقہ دمہ داران مسلمان ہیں تو اس قسم کی خرافات کو انہیں یہیں روکنا ہوگا، کیونکہ قیامت کے دن انہیں اپنے رب کے سامنے جواب دینا ہوگا جیسا کہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی دیکھے تم میں سے برائی تواسے چاہیے کہ ہاتھ سے اسے مٹانے پھر اگر (ہاتھ سے مٹانے کی) طاقت نہیں رکھتاتو اسے زبان سے مٹائے، پھر اگر ز بان سے مٹانے کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ اسے دل سے مٹائے (یعنی برا جانے اور. نفرت کرے) اور یہ درجہ ایمان کا سست ترین ہے(.صحیح بخاری؛) اب ذرا غور کریں کہ ہم اسلامی ریاست کے باسی اپنے آپ کو کس درجے میں شامل کریں ؟