حالیہ برسوں میں چین میں قیام کے دوران یہاں ہائی اسپیڈ ریلوے نیٹ ورک کی ترقی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ ایک دلچسپ تجربہ رہا ہے۔بیجنگ سے دوسرے شہروں میں جانے کے لیے ہائی اسپیڈ ریلوے کو مسافروں کی نمایاں ترجیح قرار دیا جا سکتا ہے۔یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ بڑے تعمیراتی منصوبوں کی بدولت ملک کے اہم شہری علاقوں کے مابین بہتر باہمی رابطے اور مربوط ترقی کو فروغ ملا ہے۔ ہائی اسپیڈ ریلوے میں چین کی کمال مہارت اور تیزرفتار ترقی کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج ملک میں تقریباً 35 ہزار کلومیٹر طویل ہائی اسپیڈ ریل نیٹ ورک فعال ہے اور مزید 7 ہزارکلومیٹر زیر تعمیر ہے۔یوں، چین نے اپنے تیز رفتار ریلوے نیٹ ورک کی تعمیر میں اہم سنگ میل عبور کیا ہے، جس میں تقریباً 77 فیصد اہم راستے پہلے ہی مکمل اور فعال ہیں۔
چینی پالیسی سازوں کے مطابق، متعدد ریلوے لائنیں رابطے کے متعدد علاقائی کلسٹر بنانے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔ اس ضمن میں پانچ لاکھ سے زیادہ آبادی والے 95 فیصد سے زیادہ چینی شہر اب وسیع تیز رفتار ریلوے نیٹ ورک میں شامل ہیں، جو کامیابی سے علاقائی رابطے کو بڑھا رہے ہیں اور بیجنگ۔ تھیان جن۔حے بی خطے،دریائے یانگسی ڈیلٹا، اور گوانگ دونگ۔ہانگ کانگ۔مکاؤ گریٹر بے ایریا جیسے کلیدی علاقوں میں علاقائی انضمام کے منصوبوں پر عملدرآمد کے لئے خاطر خواہ مدد فراہم کرتے ہیں۔اس بات کا تذکرہ بھی لازم ہے کہ رواں سال جنوری سے جولائی تک، چین کے ریلوے سیکٹر نے تقریباً 50 بلین امریکی ڈالر کی فکسڈ اثاثوں کی سرمایہ کاری کی ہے، جو سال بہ سال 7 فیصد کی ترقی کو ظاہر کرتی ہے۔
اسی طرح ملک کے 14 ویں پانچ سالہ منصوبے (2021-2025) میں نامزد اہم منصوبے خاطر خواہ پیش رفت دکھا رہے ہیں۔رواں سال،یہ توقع بھی ظاہر کی گئی ہے کہ قومی ریلوے نیٹ ورک میں 3 ہزار کلومیٹر سے زیادہ نئی ریلوے لائنیں متعارف کرائی جائیں گی۔
حقائق کے تناظر میں گزشتہ ایک دہائی کو چین کی ٹرانسپورٹیشن انڈسٹری کی تاریخی کامیابیوں سے بھرپور دہائی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس عرصے میں چین کے جامع سہ جہتی نقل و حمل کے نیٹ ورک کو مزید فروغ ملا ہے جس نے مؤثر طریقے سے ملکی اور بین الاقوامی اقتصادی گردش کے ہموار بہاؤ کو یقینی بنایا ہے۔اس دوران چین نے دنیا کا سب سے بڑا ہائی سپیڈ ریلوے نیٹ ورک، ایکسپریس وے نیٹ ورک، اور عالمی معیار کا پورٹ گروپ بنایا ہے۔ ایوی ایشن اور نیویگیشن عالمی سطح تک پہنچ چکی ہے۔ چین کی تیز رفتار ریل، چائنا روڈ، چائنا برج، چائنا پورٹ، اور چائنا ایکسپریس دلکش ”چینی بزنس کارڈ” بن چکے ہیں۔ نقل و حمل کا جامع نظام دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت اور مصنوعات کی تجارت کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے ملک کے طور پر چین کی بھرپور حمایت کر رہا ہے۔آج چین میں مضبوط ذرائع نقل و حمل، وقت کی بچت اور آمد ورفت کی مسافت کو کم کر رہے ہیں، شہری اور دیہی علاقوں کی ظاہری شکل کو تبدیل کر چکے ہیں، رسد اور اقتصادی بہاؤ میں تیزی کی ضمانت ہیں، جس سے نہ صرف ملکی معیشت کی ہموار گردش کو مضبوط حمایت ملی ہے بلکہ عالمی معیشت کی ترقی کو بھی مؤثر طور پر آگے بڑھایا گیا ہے۔
چین کی یہ کوشش بھی ہے کہ عہد حاضر اور آئندہ مستقبل کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک میں شفاف توانائی کو فروغ دیتے ہوئے تمام غیر ملکی برانڈز کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ نئی توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کی جانب آئیں اور چین کی بڑی منڈی سے فائدہ اٹھائیں۔ چین نے اس ضمن میں بے پناہ کوششیں کی ہیں اور انہی کوششوں کے ثمرات ہیں کہ چین اس وقت نئی توانائی کی گاڑیوں کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ بن چکا ہے۔ یوں،چین پرعزم ہے کہ جہاں ملک میں اپنے شہریوں کے لیے شفاف اور ماحول دوست ٹرانسپورٹ نظام قائم کیا جائے گا وہاں دنیا کے ساتھ بھی تعاون سے نئی توانائی کی گاڑیوں کو سماج کا حصہ بنایا جائے گا۔