قلم، قدم اور جان کی قربانی

وطن عزیز کے76 ویں جشن آزادی کے موقع پر پاکستانیوں نے پاکستان سے اپنی محبت کا بھر پور مظاہرہ کیا، تقریبات سرکاری سطح تک قابل داد و تحسین تھیں اس لئے کہ وہ تقریبات سرکار کے اس خزانے کی وجہ سے چمک رہی تھیں جس میں مزدور پاکستانیوں کے وجود سے نچوڑا ہوا خون پسینہ پڑا ہے، مزدور پاکستا نی تو دیہاڑی نہ لگنے کی وجہ سے پریشان گھروں میں بیٹھے ہوئے تھے، بازار اس لئے بند تھے کہ خریدار گھر سے نہیں نکلا اور تعلیم اداروں میں بچوں کے والدین کونچووڑ کر جو فنڈز جمع ہوئے تھے اس سے رقص وسرور کی تقریبات کا اہتمام کیا گیا، تعلیمی اداروں میں درس پاکستان،اور درس اسلام کی بجائے ناچ گانے کی تربیت دی جا ر ہی ہے اور والدین خوش ہیں کہ ان کے بچے بازاری رقص کی تربیت حاصل کر رہے ہیں، لیکن عام لوگوں کی سمجھ میں شاید یہ بات نہیں آ ئے گی ! اس لئے کہ ہم غلاموں کی غلام قوم ہیں، ہماری سوچ غلامی کی زنجیروں میں جھکڑی ہوئی ہے۔

بڑی مدت سے زنجیر ِ فرنگی کٹ گئی لیکن

ہمارے ذہن سے ان کی وہ ن نگرانی نہیں جاتی

جشن آزاد ی کے موقع پر گجرات سے شائع ہونے والے اخبار میں، جماعت اسلامی کا ایک انتخابی اشتہا ر آج کے پاکستان کا مثالی عکاس ہے، 76 ویں جشن آزادی، مگر کس حال میں ؟ ہر پیدا ہونے والا بچہ مقروض، کرپشن کی لعنت، ممبران اسمبلی بکاؤ مال، لاقانو نیت، اسمبلیاں اشرافیہ کے مفاد میں قانو ن بنانے کی تیز رفتار فیکٹریاں، بے روز گاری، امیر امیر تر، غریب غریب تر، سوچئے کیا بر صغیر کے مسلمانوں نے ایسے ملک کے لئے قربانیاں دیں؟ ہر گز نہیں،

تو پھر اٹھئے! اپنے حصے کا کردار ادا کیجئے ! دیانتدار اور خدمت ِ خلق کاپس منظر رکھنے والی قیادت جماعت اسلامی کا ساتھ دیں !

جماعت اسلامی کی بات میں وزن ہے لیکن جن کو نکلنے کا درس دے رہے ہیں وہ تو کراچی کے الیکشن میں نکلے تھے انہوں نے کراچی کا تاج جماعت اسلامی کے سر پر رکھا دیاتھا، لیکن جماعت اسلامی بھی تو درباری ہے، اگر جماعت اسلامی نے کسی مصلحت کے تحت وہ تاج پیپلز پارٹی کے قدموں میں رکھ دیا تو اس میں کراچی والوا ں کا کیا قصور، اگر جماعت اسلامی اکثریت کے باوجود اقلیت کے ساتھ کراچی کے ایوان میں بیٹھنے کی بجائے کراچی کی شاہراہوں پر بیٹھ جا تی تو ان کے سر پر کامیابی کا تاج رکھنے والے ان کے ساتھ سڑ ک پر ہوتے۔ جماعت اسلامی کے ماتھے پر حکمرانی کا محراب ہے۔ لیکن پاؤں کے نیچے اپنی زمین دوسروں کی خواہشات پر قربان کر دیتے ہیں خیبر پختون خوا میں پختون جماعت اسلامی کے اقتدار کو عملی طور پر دیکھ چکے ہیں جماعت اسلامی عوامی خدمت گار ضرور ہے لیکن، اگر وہ اپنے حق کی چوکیداری نہیں کر سکتی تو عوام کو گھروں سے نکلنے کے لئے آ ذان کیوں دے رہے ہیں ان کی آ ذان پر نمازی کیسے اور کیوں نکلیں گے جب وہ جانتے ہیں کہ امام کی امامت میں جذبہ ءتوحید کا وہ ولولہ نہیں جو مغربی غلاموں کے سامنے کلمہ حق میں ہے۔

جلسوں نعروں اور اخبارات کی سرخیوں سے پاکستان کے زخموں پر مرحم نہیں رکھا جا سکتا، اس کے لئے قلم، قدم اور جان کی قربانی دینا پڑتی ہے۔