فی زمانہ اکثریت نمود نمائش کی دلدادہ ہوتی جارہی ہے اور صرف اپنے ہم پلہ لوگوں کو ہی اہمیت دی جاتی ہے، یہاں تک کہ انہی رشتوں سے ہی میل ملاقات بھی رکھتے ہیں جو ان کے ہم پلہ ہوں، بلکہ میری نظروں میں کچھ ایسے بھی چہرے آئیں ہیں جو ایک گھر کی چھت تلے رہنے کے باوجود اگر سامنے والے انکے ہم مزاج نہیں ہوتے تو انہیں اپنے دوستوں سے ملاتے ہوئے بھی ہچکچاتے ہیں اگر دیکھا جائے تو اس چیز میں تکبر بھی چھپا نظر آتا ہے۔
جیسا کہ میں نے کسی خاتون سے پوچھا کہ یہ آپکی رشتہ دار ہے (سامنے والی خاتون شرعی پردے میں تھی) اس خاتون نے جو کافی ماڈرن تھی) ٹال مٹول سے اپنی بات کا رخ پلٹ دیا، اسی طرح ایک صاحبہ کی نند (جو کافی دولتمند تھی) نے اپنی بیٹی کی شادی پر اپنے بھائی اور بھاوج کو لڑکے والوں سے دور رکھا جو بیچارے نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے تھے، جب لڑکے کو انگوٹھی پہنانے اسکے گھر جارہے تھے تو کسی بہانے سے اپنی بھابھی کو اپنی بیٹی کے ساتھ گھرپر چھوڑا کہ یہ اکیلی ہے۔ یہ چیز جب میں نے حج کے سفر کے دوران بھی دیکھی تو انتہائی افسوس ہواکہ اس در پر تو ان چیزوں سے پرہیز کی جائے۔
حج کے مناسک کے دوران ہم منی میں ایک دن دس بارہ خواتین رات کا کھانا کھا رہیں تھیں ساتھ میں ایک دوسرے کا حال بھی پوچھ رہے تھے ایک خاتون جو بہت کم گفتگو میں حصہ لے رہی تھی، میں نے اس سے بات چیت کی اس نے بتایا کہ وہ نہایت غریب خاتون ہے کسی نیک بندے نے آن دونوں میاں بیوی کےحج کے اخراجات ادا کئے ہیں اس طرح رب العزت نے ہمیں اس در پر پہنچایا ہے ساتھ ہی وہ رونے لگی. ہم چند خواتین کے بھی اسکی داستان سنکر آنکھوں میں آنسو اگئے لیکن ہمارے گروپ میں دو خواتین. ایسی بھی تھی جو اس غریب کے ساتھ کھانا کھانا. بھی پسند نہیں کر رہیں تھیں فورا ناگواری سے اٹھ کر چلی گئی (پرائیوٹ حج سروس کے ذریعے ہم گئے تھے) اس بات کو ہم سب نے نوٹ کیا اور ہمیں انتہائی افسوس بھی ہوا کہ وہ دونوں خواتین اس کی غربت کا سن کراس سے دور دور رہنے لگیں۔
میری ایک دوست کی بہو جو کم گو،اور سادہ سی تھی حج کے سفر میں کچھ خواتیں اسے زیادہ اہمیت نہیں دے رہی تھی اسکی ساس یعنی میری دوست نے جب یہ دیکھا تو اسے بہت دکھ ہوا اس نے ایک دن ان دونوں خواتین کے سامنے اپنی بہو کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری بہو ماشاءاللہ انجنئیر ہے اور اس کا تعلق بہت اچھی فیملی سے ہے آپ یقین کریں کہ ان خواتین کا انداز اور رویہ ہی بدل گیا اب وہ اسے بڑی عزت اور پیار دینے لگیں جس کو سب نے نوٹ کیا، کیا ہمارا یہ طریقہ کار صحیح ہے؟ ہم تو الحمد للہ مسلمان ہیں دین اسلام نے صرف تقویٰ کی بنیاد پر ایک دوسرے پر فوقیت دی ہے۔
کسی کے ظاہری حلیہ اور لباس سے متاثر ہونا اعلیٰ ظرفی نہیں، اعلیٰ ظرفی یہ کہ سامنے والے کے حسن سلوک خوش اخلاقی اور مہذب طور طریقوں کو اہمیت دی جائے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ کے نبی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں ایک خاص مقام حاصل تھا کفار حیران ہوتے تھے ایک کالے حبشی غلام کو اتنا اونچا مقام اور عزت دی گئی ہے، یہ اعزاز یہ مقام تو رب العالمین کی طرف سے انکے تقویٰ کی بدولت تھا سبحان اللہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے سامنا ہوتا تو آپ انہیں یا سیدی کہہ کر بلاتے، ماشاءاللہ
اور آج نام نہاد لبرل طبقہ اپنے تعلقات انہی لوگوں سے نبھاتا ہے اور استوار رکھتا ہے جو ان کی اپنی کلاس کے ہوں، پھر اپنے بڑوں کو دیکھ کر انکے بچے بھی اسی طرف چل پڑتے ہیں. میرے رب کو بھی بندے کی یہ ادا پسند نہیں، رب العزت ہم سب اس تکبر اور منافقت سے محفوظ رکھے آمین یا رب العالمین